سورة الحشر - آیت 9

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِن قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ مال ان کا بھی حق ہے ۔ جنہوں نے مہاجرین سے پہلے اس گھر (مدینہ) اور ایمان میں جگہ پکڑ رکھی ہے ۔ جو شخص ان کی طرف ہجرت کرکے آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور جو مال مہاجرین کو ملا ہے اس سے اپنے دلوں تنگی نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں پر مقدم رکھتے ہیں اگرچہ وہ آپ (بھوک کی) تنگی میں ہوں اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچایا گیا تو وہی لوگ مراد پانے والے ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اور ان لوگوں کو بھی دیکھو کیسے مخلص باکمال ہیں جنہوں نے ان مہاجرین کے پہنچنے سے پہلے مدینہ شریف میں دار الایمان ایمان کا گھر بنایا جو لوگ ان کی طرف ہجرت کر کے آتے ہیں وہ لوگ ان سے دلی محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو اللہ کی طرف سے مال واسباب ملا ہے بمقابلہ ضروریات مہاجرین کے اپنے دلوں میں اس مال واسباب کی حاجت نہیں پاتے بلکہ مہاجرین کو اپنا بھائی بند جانتے اور ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو کیونکہ اہل ایمان کے حق میں ان کا اصول ہے۔ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس لئے وہ ہر مومن کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر مقدم جانتے ہیں ایسا کرنے والے اپنے نفس پر قابو پا جاتے ہیں اس لئے وہ نفس کے بخل سے بچتے ہیں اور ہماری طرف سے عام اعلان ہے کہ جو لوگ اپنے نفس کے جبلی بخل عادات قبیحہ جو قویٰ بہیمیہ سے پیدا ہوتی ہیں ان سے بچ جائیں وہی نجات یاب ہوں گے یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ ہیں جو شمع محمدی پر مثل پروانوں کے نثار ہیں۔ یعنی دربار رسالت میں حاضر رہنے والے مہاجرین اور انصار جن کا ذکر اوپر ہوا۔