وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جو کچھ اللہ نے ان کے مالوں میں سے رسول کے ہاتھ لگوادیا ہے تو تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہے غلبہ دیتا ہے اور اللہ ہر شئے پر قادر ہے
یہ تو محض اللہ کا فضل ہوا کہ تم لوگ ان پر فتحیاب اور کامیاب ہوئے ورنہ تم کو خوب معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی فوج کو جو کچھ ان یہودیوں سے دلوایا ہے تم مسلمانوں کی قوت اور محنت کا نتیجہ نہیں کیونکہ تم لوگوں نے بغرض جنگ اس پر گھوڑے یا اونٹ نہیں دوڑائے یعنی تمہارا رس یا پلٹن ان پر حملہ آور ہو کر فتحیاب نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کام پر قدرت رکھتا ہے پس تم لوگ جو کچھ چاہو اسی قادر قیوم سے مانگا کرو۔ (مسلمانوں کے حملہ کے وقت یہودی قلعہ گیر ہوگئے تو مسلمانوں نے ان کے باغوں کو تباہ و برباد کردیا اس پر بعض نیک دل مسلمانوں کے دلوں میں کچھ شبہ ہوا کہ یہ کام اچھا نہیں ہوا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ منہ ( جنگ میں کفار سے جو مال اسباب ہاتھ آتا ہے وہ اگر لڑ کر آئے تو اس کو غنیمت کہتے ہیں بے لڑے غلبہ ہونے کی صورت آئے تو اس کو (فیٔ) کہتے ہیں غنیمت میں چار حصے شرکاء جنگ غازیوں کے لئے ہوتے ہیں پانچواں حصہ (خمس) ان لوگوں کا جن کا ذکر اس آیت میں ہے مگر فیٔ ساری نمنزلہ خمس غنیمت کے ہے یعنی فی کا کل مال انہیں لوگوں پر تقسیم ہوگا اللہ کا حصہ الگ نہیں وہ انہیں مستحقین پر تقسیم ہوجاتا ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ زندگی میں رسول (علیہ السلام) کا تھا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلیفہ اور امام وقت کاﷺ۔ منہ)