يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مومنو ! جب تم رسول کے کان میں بات کہنا چاہو تو کان میں بات کرنے سے پہلے کچھ خیرات آگے رکھ لیا کرو ۔ یہ تمہارے حق میں بہتر اور زیادہ صفائی کا موجب ہے ۔ پھر اگر تم پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے
اے ایمان والو ! اور ایک حکم سنو جو منافقوں کی کانا پھوسی بند کرنے کے لئے ایک ذریعہ ہے وہ یہ ہے کہ جب تم لوگ رسول (علیہ السلام) سے کسی امر میں ضروری کام کے لئے سرگوشی کرنا چاہو یعنی بغیر اس کے تم کو چارہ نہ ہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ ! دے لیا کرو۔ کیونکہ تم اگر کانا پھوسی کرو گے تو تمہاری دیکھا دیکھی منافقین بھی کریں گے حالانکہ اس رسم کا بند کرنا ہم کو منظور ہے پس تم ایسے کام سے پہلے صدقہ دے لیا کرو۔ یہ لوگ چونکہ صدقہ دینے سے بہت گھبراتے ہیں اس لئے وہ صدقہ نہ دیں گے۔ تو خود بخود یہ رسم مٹ جائے گی۔ یہ طریق تمہارے لئے بہتر اور پاک صاف ہے۔ پھر بھی اگر تم لوگ نہ پائو منافقوں اسلام اور اہل اسلام کے دشمنوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کانوں میں سر گوشیاں کرنے سے عقلمندی کے طریق پر سمجھایا گیا چونکہ ان کی نیت ہی شرارت کی تھی اس لئے باز نہ آتے جس سے مسلمانوں کو صدمہ بلکہ نقصان ہوتا۔ اس لئے مسلمانوں ہی کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا گیا۔ منافق بھی چونکہ مسلمان کہلاتے تھے۔ لہٰذا یہ حکم ان کو خود بخود شامل ہوگیا۔ (منہ) یعنی تم میں سے جو لوگ بوجہ غربت کے صدقہ نہ دے سکیں۔ اور ان کو کسی ضرورت کے لئے نبی کے کام میں عرض معروض کرنی ہو تو ایسے لوگوں کو بغیر صدقہ دئیے اجازت ہے کہ سرگوشی کرلیں۔ کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے کیونکہ صدقہ کا حکم عارضی ہے۔ تاکہ مخالفوں کی بندش ہوجائے۔ ورنہ اصل میں کوئی ضروری کام نہیں۔