سورة محمد - آیت 1

الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جو لوگ کافر ہوئے اور انہوں نے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا اللہ نے ان کے اعمال اکارت کردیئے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔6) اللہ مالک الملک کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ جو لوگ کافر ہیں خود کافر ہونے کے علاوہ اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں یعنی دل سے کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نہ پھیلے لوگ اس کو قبول نہ کریں۔ ان کے اعمال صالحہ جو کبھی کوئی اچھا کام کسی وقت ان سے ہوا ہوگا اللہ وہ سب ضائع کر دے گا ذرہ برابر اس کا اجر ان کو نہ ملے گا۔ کیونکہ کفر اور مقابلہ اسلام دونوں ایسی زہریلی چیزیں ہیں کہ اپنے سے پہلے کے کسی نیک کام کو نہیں چھوڑتے اور جو لوگ ایمان دار ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں خاص کر اس کلام (قرآن) پر ان کا ایمان ہے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے اور وہ برحق ہے ان کے پروردگار کے ہاں سے آیا ہوا اس لئے وہ دل سے اس کو مانتے ہیں ایسے لوگوں کو انعام یہ ملے گا کہ اللہ ان کے گناہ جو بھول چوک میں ان سے ہوئے ہوں گے ان سے دور کر دے گا اور ان کی حالت سنوار دے گا۔ ان دو فرقوں میں یہ فرق اس لئے ہے کہ جو لوگ کافر ہیں وہ ناراستی کے پیرو ہیں اور جو ایماندار ہیں وہ حق کے پیرو ہیں حق بھی ان کا تراشیدہ یا پسندیدہ نہیں بلکہ وہ حق جو ان کے رب کے ہاں سے ان کے پاس آیا ہے اس لئے ان دو گروہوں سے جو جو معاملہ ہوگا دونوں کی شان کے مطابق ہے اسی طرح اللہ مہربانی سے لوگوں کے سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ ہدایت پائیں چونکہ ان دونوں کے اعمال اور ارادے باہمی متخالف اور متضاد ہیں اس لئے لازمی ہے کہ ان دونوں گروہوں کے میل ملاپ پر بھی اس کا اثر ویسا ہی مخالف ہو۔ چنانچہ تم مسلمان دیکھ رہے ہو کہ کفار تم لوگوں سے کیسا معاندانہ برتائو کرتے ہیں پس میدان جنگ میں بغرض جنگ جب تم ان کافروں سے ملو تو ان کی گردنیں مارا کرو یہاں تک کہ جب تم ان دشمنان دین کو خوب قتل کرچکو تو جب ان کی قوت کمزور ہوجائے اور بھاگنے لگیں تو تم ان کو اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ قید کرلیا کرو۔ یہ لوگ تمہارے ہاں اسیران جنگ ہوں گے اس سے بعد ان لوگوں کو یا تو احسان کر کے چھوڑ دیا کرو یا عوض لے کر رہا کردیا کرو مگر اسیران جنگ کو کسی صورت میں قتل نہ کرنا۔ ان لوگوں سے یہی برتائو جاری رکھو جب تک کہ لڑائی ختم ہوجائے اور دشمن لڑنے سے ہتھیار ڈال دے۔ یعنی ہر ایک محاذ جنگ پر اسی طرح لڑتے رہو۔ پہلے شدت سے جنگ۔ بعد جنگ قید۔ قید کے بعد باحسان بریت یا بمعاوضہ نقدی رہائی۔ یہی سلسلہ ختم جنگ تک جاری رہے۔ حکم بھی ہے۔ اس کو یاد رکھو۔ ایک بات اور سنو ! بعض لوگ کہا کرتے ہیں۔ اللہ ہم کو جو حکم دیتا ہے کہ ہم کافروں کو قتل کریں خود ہی کیوں نہیں ان کو مار ڈالتا وہ یاد رکھیں اللہ بذات خود ان کو تباہ کرنا چاہتا تو خود ان سے بدلہ لے لیتا کوئی اس کو روکنے والا نہیں لیکن اس کو منظور ہے کہ تم میں سے بعض کو بعض کے حق میں مامور کر کے جانچے تاکہ تمہارے اعمال کا پبلک میں اظہار ہو اور تم کو اجر عظیم ملے اللہ تعالیٰ اگر سب کام خود اس طرح کرے جیسے یہ کہتے ہیں تو بھوکے کو روٹی کون کھلائے اور پیاسے کو پانی کون پلائے سو یہ ان کی غلطی ہے۔ قدرتی نظام اسی طرح ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہی ایک دوسرے کے کام آتا ہے اس واسطے اللہ تم کو ہدایت کرتا ہے کہ تم اس کی اطاعت میں دشمنان دین سے لڑو اور سنو ! جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہیں کرے گا جیسے کفار کے اعمال ضائع کئے جائیں گے بلکہ ان مؤمنین کو ہدایت کرے گا اور ان کا حال سنوار دے گا یعنی دنال کی کوفت اور مصیبت سے ان کو نجات دے گا۔ اور ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جو پہلے سے ان کو پچنوا رکھی ہے کہ وہ ایسی ہوگی یوں ہوگی اس میں ایسی ایسی راحتیں ہوں گی اس لئے وہ جاتے ہی اس میں یوں داخل ہوجائیں گے گویا وہ ان کا گھر ہوگا۔