أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
وہ جنہوں نے برائیاں کمائی ہیں کیا ایسے سمجھتے ہیں ۔ کہ ہم انہیں ان کے برابر کردیں گے ۔ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ۔ ان سب کا مرنا جینا ایک سا ہوگا بڑے دعویٰ(ف 1) ہیں جو وہ کرتے ہیں
(21۔37) کیا بھلا جو لوگ اس تعلیم سے روگردان ہیں اور جرأت سے بدکاریاں کر رہے ہیں ان کو یہ خیال ہے کہ ہم (اللہ) ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے ؟ جو ایمان دار اور نیکو کار ہیں ایسا کہ ان کا جینا اور مرنا سب برابر ہوگا؟ یعنی جیسے دنیا کی زندگی میں یہ لوگ ان کی طرح بلکہ ان سے اچھے چلتے پھرتے رہے اسی طرح مر کر بھی انہی جیسے رہیں گے ؟ یہ خیال دل میں جمائے بیٹھے ہیں۔ تو بہت برا خیال کرتے ہیں (کیونکہ ایسا خیال کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے حق میں ظلم کا گمان کرنا ہے) اس لئے کسی نیک دل بھلے آدمی کو یہ خیال دل ودماغ میں نہ رکھنا چاہیے۔ حالانکہ زمین و آسمان کی ہر چیز شہادت دیتی ہے کہ جس طرح روشنی اور ظلمت برابر نہیں اسی طرح نیک وبد بھی یکساں نہیں اور اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین باقاعدہ اس لئے بنائے ہیں تاکہ دنیا کا انتظام باقاعدہ ہو اور ظلم وعدل میں تمیز ہو کر ہر آدمی کو اس کے کئے کا بدلہ پورا دیا جائے اور ان پر کسی طرح کا ظلم نہ ہو۔ باوجود اس کے بھی جو لوگ ایسے غلط خیالات رکھتے ہیں ان کی بابت یہ یقین کرنا چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات نفسانیہ کے پیرو ہیں۔ کیا تم نے ایسا آدمی کبھی دیکھا ہے۔ جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جدھر کو نفس لے جاتا چلتا ہے۔ اور جو کچھ کہتا ہے کر گذرتا ہے ایسے آدمی کو علم بھی ہو تو باوجود علم کے بھی اللہ نے اس کو گمراہ کردیا ہے اور اس کے کانوں اور دل پر غفلت اور جہالت کی مہر کردی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے پھر کون ہے جو اللہ کے ایسا کرنے کے بعد اس کو ہدایت کرسکے کیا تم سمجھتے نہیں ہو کہ اپنے نفس کی تابعداری کیسی بری بلا ہے اسی نفسانی تابعداری اور اتباع ہوا کا اثر ہے جو یہ لوگ عرب کے مشرک کہتے ہیں ہماری زندگی صرف یہی پہلی زندگی ہے جس میں ہم مرتے جیتے ہیں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہم زمانہ کی گردش سے مر جاتے ہیں ان کے خیال میں دنیا کا فاعل حقیقی کوئی نہیں لیکن جب پوچھا جائے کہ کیا تم یہ بات علم الیقین سے کہہ سکتے ہو تو صاف کہدیتے ہیں‘ یقین سے ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کو اس بات کا کوئی علم نہیں محض خام خیال سے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں بھلا کوئی شخص اس بات کا قائل ہوسکتا ہے ؟ کہ دنیا کا منتظم حقیقی کوئی نہیں کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ ہی کوئی نہیں حالانکہ اللہ کی ہستی کا علم انسان کے ضمیر میں راسخ ہے چنانچہ کسی صاحب دل نے کہا ہے کانٹا ہے ہر ایک دل میں اٹکا تیرا آویزہ ہے ہر گوش میں لٹکا تیرا مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ہے ضرور بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا اس فطری علم کے سوا اللہ کی طرف سے وقتا فوقتا انبیاء کرام آتے رہے جو لوگوں کو اللہ کی ہستی کی تعلیم دیتے تھے اور یقین دلاتے تھے اسی طرح اس میں بھی ہم (اللہ) نے ایک عظیم الشان نبی بھیجا جس کی زندگی کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو اللہ کے ساتھ جوڑا جائے چنانچہ وہ ایسا کرتا ہے اور ان منکروں کو بھی سمجھاتا ہے لیکن ان کی ضد اور تعصب کا یہ حال ہے کہ جب ان کو ہمارے کھلے کھلے احکام سنائے جاتے ہیں تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اگر تم مسلمان اس دعوی میں سچے ہو کر مر کر پھر عذاب وثواب کے لئے اٹھتا ہے تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کر کے لے آ۔ ہم مان لیں گے اس جواب کے سننے والے خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کہاں تک ان کو تحقیق حق سے مطلب ہے۔ نبی اور مسلمان تو کہتے ہیں اللہ قیامت کے روز سب کو زندہ کر کے ان کے نیک وبد کا محاسبہ کرے گا اور یہ لوگ جواب میں کہتے ہیں ابھی زندہ کر کے دکھا دو۔ بھلا اس سوال کو اس مضمون سے کیا تعلق۔ مگر ان لوگوں کا اصول ہے۔ تعلق ہو یا نہ ہو بات کہہ دیں گے۔ اچھا تو اے نبی ! اپنے اصل مضمون کو مدنظر رکھ کر ان لوگوں کو کہہ کہ غور سے سنو ! میرا مذہب یہ ہے کہ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے یہاں تک تو تمہیں بھی اتفاق ہے اس کے بعد کے واقعہ میں تم کو اختلاف ہے یعنی ہم کہتے ہیں کہ پھر تم کو قیامت کے دن میں اللہ جمع کرے گا۔ اور تم اس سے منکر ہو ہمارے نزدیک اس دن کے ہونے میں ذرہ بھی شک نہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارا خیال صحیح ہے جس کے بہت سے دلائل ہمارے پاس ہیں مگر اکثر لوگ جو ادھر ادھر کے بے ہودہ سوال کرتے ہیں ان کو اصل حقیقت کا علم نہیں اس لئے وہ نہیں جانتے اور نہ سمجھ سکتے ہیں ؎ چوں ندانند حقیقت رہ افسانہ زوند سنو ! تمام آسمانوں اور زمینوں کی حکومت اللہ کے قبضے میں ہے یعنی وہی ان کا اصل اور حقیقی مالک ہے اس لئے اس نے اپنے بندوں کی نیک وبد کی جزا سزا عام دینے کو ایک دن خاص مقرر کر رکھا ہے جس کا نام قیامت ہے اور جس روز قیامت قائم ہوگی یعنی جب وہ روز حساب آئے گا اس روز جھوٹ کے شیدائی اور جھوٹ کو اختیار کرنے والے بہت گھاٹا پائیں گے کیونکہ ان کو اپنے کئے ہوئے اعمال اس روز سامنے آجائیں گے جس سے ان کو اپنی دنیاوی زندگی کے نفع نقصان کا علم ہوجائے گا۔ اور تم دیکھو گے کہ ہر ایک گروہ یعنی انسانی نسل کا ہر فرد دو زانو اوندھا پڑا ہوگا جیسے کوئی عاجزانہ طریق سے حاکم کے سامنے بیٹھتا ہے ہر قوم اپنے اعمالنامہ کی طرف بلائی جائے گی اس روز ان کو کہا جائے گا لو جی جو کچھ تم دنیا میں کرتے تھے اس کا پورا پورا بدلہ آج تم کو دیا جائے گا۔ دیکھو یہ ہماری کتاب جس میں تمہارے اعمال درج ہیں۔ تمہارے حالات صحیح بتاتی ہے کیونکہ جو کچھ تم لوگ کرتے تھے ہم اس کو بواسطہ ملائکہ لکھا کرتے تھے پس دیکھ لو اس میں کوئی کمی وبیشی تو نہیں ہوئی اس شہادت کا فیصلہ آج یوں ہوگا کہ جو لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائے اور کام بھی اچھے اچھے مطابق فرمودہ اللہ و رسول انہوں نے کئے اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا جو بہت بڑی نعمت ہوگی اور اگر بغور سوچو تو یہی بڑی کا میابی ہے جس کو نصیب ہو۔ اور ان کے برخلاف جو لوگ کافر ہیں ان کو پوچھا جائے گا کیا تم کو میرے احکام نہیں سنائے گئے تھے ؟ ضرور سنائے گئے تھے پھر تم نے ان کو قبول نہ کیا۔ بلکہ تکبر کیا اور تم مجرم ہو اور دیکھو جب تمہیں کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں ذرہ بھی شک نہیں تو تم کہتے ہم نہیں جانتے قیامت کیا بلا ہے ہاں تمہارے مسلمانوں کے بار بار کہنے سے ہم اس کو ایک واہمہ سا جانتے ہیں اور ہم کو اس بات کا یقین نہیں اس بداعتقادی میں جو کچھ وہ کرچکے ہوں گے اس سب کی برائی اس روز ان کے سامنے ظاہر ہوجائے گی اور جو کچھ وہ مسخری مخول کرتے ہیں اس سارے کا وبال ان کو گھیر لے گا۔ اور اللہ کی طرف سے ان کو کہا جائے گا کہ جیسے تم اپنے اس دن کو بھولے رہے تھے ہم اللہ کے فرشتے آج تم کو عذاب میں ڈال کر بھول جائیں گے چیخو گے چلائو گے ہم تمہاری ایک نہ سنیں گے۔ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے اس میں پڑے رہو۔ سزا بھگتو گے اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ حالت تمہاری اس لئے ہوگی کہ تم نے اللہ کی آیات (قرآنی اور آفاقی) کو معمولی ٹھٹھا مخول سمجھا تھا تمہارے دل میں اللہ کے وعدوں اور الٰہی عظمت کا کوئی اثر نہ تھا اور تم دنیا کی زندگی سے دھوکہ کھا گئے تھے۔ یہ عتاب شاہانہ ان کے لئے سوہان روح ہوگا۔ پس وہ اس روز اس عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے۔ نہ ان سے توبہ کرائی جائے گی۔ گو وہ دنیا میں کتنی ہی عزت کے مالک ہوں گے مگر اللہ کے ہاں کسی کی ایری پیری نہیں چل سکتی کیونکہ سب قسم کی تعریفات اللہ ہی کو ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کا بلکہ سب دنیا کا پروردگار ہے آسمانوں اور زمینوں میں اس کی بڑائی ہے اسی کی تعریف کے گیت گائے جاتے ہیں اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے۔ یا عزیر یا غالب۔ لا غالب الا انت