سورة الدخان - آیت 3

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کہ ہم نے اس (قرآن) کو مبارک رات میں اتارا ہم ہیں ڈرانے والے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(3۔9) تحقیق ہم (اللہ) نے وہ کتاب بابرکت رات یعنی رمضان کی لیلۃ القدر میں اتاری ہے یعنی قرآن مجید کا نزول رمضان کی لیلۃ القدر میں شروع ہوا۔ تاکہ لوگ بدکاریاں چھوڑ دیں اور نیکی اختیار کریں بے شک ہم اس کتاب کے ساتھ لوگوں کو ڈرائیں گے۔ اس بابرکت رات میں قرآن کے ذریعہ تمام باحکمت امور یعنی احکام متعلقہ نجات کی تفصیل کی جائے گی یہ سب کچھ ہمارے حکم سے ہوا ہے کیونکہ ہم ہی اس کتاب کو اے نبی تیری طرف بھیج رہے ہیں اللہ جس سے کوئی خدمت لے اس کا فضل ہے اس لئے یہ نزول قرآن تجھ پر محض تیرے پروردگار کی رحمت سے ہے ورنہ کسی کا اس پر استحقاق نہیں (لیلۃ مبارکہ : اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے مگر ہم نے جو معنی لکھے ہیں یہ معنی دونوں گروہوں (محدثین اور متکلین) کے نزدیک معتبر ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ : (لیلۃ مبارکۃ) رمضان کی لیلۃ القدر ہے۔ یقول تعالیٰ مخبرا عن القران العظیم انہ انزلہ فی لیلۃ مبارکۃ وھی لیلۃ القدر کما قال عزو جل انا انزلنہ فی لیلۃ القدر وکان ذلک فی شھر رمضان کما قال تبارک و تعالیٰ شھر رمضان الذی انزل فیہ القران (زیر آیت لیلۃ مبارکۃ) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارا اور یہ رمضان کے مہینے میں ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا ہے اس کے خلاف جو روایت آئی ہے وہ ضعیف ہے) وغیرہ تفسیر کبیر میں لیلۃ القدر کے معنی لکھ کر امام فرماتے ہیں۔ اما القائلون بان المراد من اللیلۃ المبارکۃ المذکورۃ فی ھذہ الا یۃ ھی لیلۃ النصف من شعبان فما رایت لھم دلیلا یقول علیہ (زیر آیت لیلۃ مبارکہ) جو لوگ لیلۃ مبارکہ سے شعبان کے وسط کی رات کہتے ہیں میں نے ان کے پاس اس دعوی پر کوئی معقول دلیل نہیں پائی۔ یہ ہے دونوں گروہوں کا اتفاق (فالحمد للہ) فیھا یفرق :۔ اس لفظ کے معنی میں مفسرین نے بہت کچھ لکھا ہے میں نے جو ترجمہ کیا ہے آیت کا سیاق سباق دیکھنے سے ان معنی کی تصدیق ہوسکتی ہے شروع سورت سے العلیم تک قرآن مجید کی تعریف ہے اس سیاق پر غور کرکے تفسیر میں یفرق کے معنی جو ہم نے کئے ہیں قابل تصدیق ہیں۔ (منہ) چونکہ ابتدا اس تفصیل کی اس مبارک رات سے (جس میں) نزول قرآن شروع ہوا ہے) ہوئی اس لئے تفصیل (یفرق) اسی کی طرف منسوب کی گئی۔ (منہ) کسی عارف نے کیا ہی سچ کہا ہے۔ دادِ حق راقابلیت شرط نے بلکہ شرط قابلیت داد ہست پس تو اس کتاب کی تبلیغ پر دل تنگ نہ ہو۔ مخالفین جو کہتے ہیں تحمل سے سنا کر بے شک وہ اللہ سب کی سنتا اور جانتا ہے وہ تیری ایسی مدد کرے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی سنو جی ! تیرا رب جس نے یہ کتاب اتاری ہے وہ ہے جو آسمانوں زمینوں اور ان کے درمیان کی کل چیزوں کا پروردگار ہے اگر تم لوگ کسی سچی بات پر یقین کرتے ہو تو اس بات پر یقین کرو کہ وہی سب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے وہ تمہارا یعنی موجودہ نسل کا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا پروردگار ہے پس سب لوگوں کو چاہیے کہ اسی کی طرف جھکیں اور اسی کے ہو رہیں۔ لیکن یہ لوگ اس سچی تعلیم کو نہیں مانتے بلکہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں