سورة الشورى - آیت 39

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ان کے لئے کہ جب ان پر زیادتی ہوتی ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں (یعنی کفار سے جہاد کرتے ہیں)

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(39۔48) اور سنو ! بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندہ بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو کوئی جتنا چاہے ظلم کرے وہ سر نہ اٹھائے نہ بدلہ لے یہ اس کا خیال غلط ہے اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ وہ لوگ بھی اللہ کے نیک بندے ہیں کہ جب ان پر کسی کی طرف سے ظلم وستم ہوتا ہے تو بغرض دفع ظلم اور قیام امن بدلہ لے لیتے ہیں مگر نہ اتنا بدلہ کہ ان کی طبیعت ان کو بتلا دے بلکہ شرعی انداز سے جو یہ ہے کہ برائی کا بدلہ برائی جتنا ہے زیادہ نہیں۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ معاف کرنا اعلیٰ درجہ ہے اس لئے ہم اس کا اعلان کرتے ہیں کہ جو کوئی باوجود مظلوم ہونے کے معاف کر دے اور معافی کے ذریعہ بگاڑ کی اصلاح کرے تو اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے اس معافی کے عوض وہ اس کو معاف فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔ اور جو لوگ بجائے کسی کو معاف کرنے کے الٹے ظلم کرتے ہیں یقینا جانو کہ وہ اللہ ان ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ دنیا کی چند روزہ زندگی میں پرورش اور بات ہے۔ محبت اور بات۔ ہاں جو اپنی مظلومی کے بعد جائز طور سے بدلہ لیں تو ان لوگوں پر الزام نہیں ہوگا کہ انہوں نے ظلم یا ناجائز کام کیا۔ البتہ الزام ان لوگوں پر ہے جو بے وجہ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے پھرتے ہیں کسی کو لوٹ کسی کو مار کسی کو قتل کسی پر جبر کسی کی ہتک کسی کو گالی۔ انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ باوجود اجازت بدلہ کے جو کوئی صبر کرے اور مجرم کو بخش دے تو بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے مگر جس کو اللہ سمجھ دے وہی اس راز کو پا سکتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی اس حکمت کی سمجھ نہ دے اس کے لئے اس خدا کے سوا کوئی بھی یارو مددگار نہیں جو اس کی مدد کرسکے۔ اے دیکھنے والے یہ ظالم جب عذاب الٰہی دیکھیں گے تو تو ان ظالموں کو دیکھے گا اس وقت کہتے ہوں گے۔ کیا اس عذاب سے نکل کر دنیا کی طرف لوٹنے کی کوئی راہ ہے جواب ملے گا نہیں۔ اور جب دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو تو ان کو ذلت میں خوف زدہ دیکھے گا۔ ایسے سہمیے ہوں گے کہ کسی کی طرف دیکھیں گے تو نیچی نگاہ سے دیکھیں گے جو ان کی کمال ذلت کی علامت ہوگی ان کے مقابلہ میں جو لوگ ایماندار صالح بندے ہوں گے وہ زور سے کہیں گے کہ خسارہ والے بدنصیب وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو آج قیامت کے دن خسارہ میں ڈالا کیونکہ انہوں نے ایسے کام نہ کئے جو آج ان کو کام آتے۔ فرشتے کہیں گے سنو لوگو ! یہ ظالم لوگ ضرور دائمی عذاب میں پھنسے رہیں گے اللہ کے سوا جن لوگوں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا جانتے تھے اس روز اللہ کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہ ہوگا جو ان کی مدد کرے اور سچ تو یہ ہے کہ جس کو اللہ ہی گمراہ کر دے یعنی اپنی جناب سے درکا دے اس کے لئے بہتری کی کوئی صورت نہیں مگر اللہ رحیم کسی بندے کو یونہی نہیں درکاتا یا گمراہ کرتا بلکہ ایسے لوگوں کی شرارتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ ایسی شرارتوں کی وجہ سے اللہ جسے گمراہ کرے تو اس کی ہدایت کے لئے کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ ہو کہاں سے جبکہ خیروبرکت کے سارے راستے اللہ کے قبضے میں ہیں جو اس کی خفگی کی وجہ سے بند ہوگئے اب خیر آئے تو کہاں سے آئے۔ اس لئے تم کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اپنے رب کی تعلیم (قرآن مجید) کو مانو اس سے پہلے کہ وہ قیامت کا دن آئے جو اللہ کی طرف سے ہٹنے والا نہیں۔ اس روز تمہارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہ ہوگی اور نہ تمہاری حالت کو کوئی برا سمجھنے والا اور حمایت کرنے والا ہوگا۔ غرض اس روز تم سب لوگ بالکل بے چارے اور بےیارومددگار ہو گے۔ تمہاری کوئی بھی حفاظت یا حمایت کرنے والا نہ ہوگا۔ یہ سن کر پھر بھی اگر یہ لوگ روگردان ہوں اور پرواہ نہ کریں تو کچھ پرواہ نہیں کیونکہ ہم نے تجھے ان پر ذمہ دار داروغہ بناکر نہیں بھیجا کہ ان کی بے فرمانیوں کی جواب دہی تجھ پر ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ تیرے ذمہ صرف پہنچانا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا۔ ہم انسان کی طبیعت اور اس کی عادات کو خوب جانتے ہیں اس کی طبعی عادت ہے کہ جب ہم (اللہ) انسان کو اپنی رحمت سے مزہ چکھاتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتا ہے اور بڑے مزے لیتا ہے اور جب ان کی بداعمالی کی وجہ سے ان کو کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ انسان پچھلے سارے احسانوں کو ایک دم بھول کر بڑا ناشکرا ہوجاتا ہے کس قدر اس کی ناشکری اور کس قدر احسان فراموشی ہے ایسے انسان کے حال پر افسوس ہے اتنا بھی نہیں سوچتا کہ میں کس سے بگاڑتا ہوں۔ اس مالک شہنشاہ سے جس کی حکومت کی کوئی حد نہیں۔