إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ
وہ لوگ جو ذکر (قرآن) کے جب وہ ان کے پاس آیا منکر ہوئے (ہم) انہیں بدلہ دیں گے اور یہ تو نادر کتاب ہے
(41۔46) پس سنو ! جن لوگوں کے پاس قرآن کی نصیحت آئی اور وہ اس نصیحت سے منکر بلکہ مخالف ہوئے (وہ اپنا انجام دیکھ لیں گے) کیونکہ وہ گمراہی پر ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ وہ قرآن بڑی غالب کتاب ہے مخالفوں سے نہ دبے گی کیونکہ نہ اس کے آگے سے جھوٹ آسکتا ہے نہ پیچھے سے یعنی نہ کوئی صحیح واقعہ آئندہ کو ایسا پیدا ہوگا جو اس قرآن کی تکذیب کرسکے نہ گذشتہ واقعات سے کوئی واقعہ ایسا ملے گا جو قرآن کے صریح مخالف ہو۔ کیونکہ یہ قرآن اس اللہ کے پاس سے اترا ہوا ہے جو بڑی حکمت والا بری تعریف والا ہے اس لئے ان لوگوں کی مخالفت کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا باقی رہا ان کا زبانی چیخ چیخ کرنا سو اس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہمیشہ سے ایسے لوگ ایسا کہتے چلے آئے اے نبی ! کفار کی طرف سے تجھے وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں کو مخالفوں کی طرف سے کہی گئی تھیں۔ باوجود ان لوگوں کی شرارتوں کے ان کی بیخ کنی نہیں ہوتی اس لئے کہ تیرا پروردگار باوجود گناہ بندوں کے بڑی بخشش والا ہے اور جو اس کی بخشش سے مستفیض نہیں ہوتے ایک حد تک پہنچ کر ان کے حق میں سخت عذاب والا بھی ہے ان لوگوں کی شرارت دیکھو کہ اب تو قرآن کو اس لئے نہیں مانتے کہ ہم میں سے ایک آدمی کیسے رسول ہو کر آیا یعنی اپنی جنس کے آدمی کا رسول بننا ان کو پسند نہیں اور اگر ہم اس قرآن کو عربی کے سوا کسی اور عجمی زبان میں نازل کرتے پھر تو یہ لوگ کہتے اور ایسا کہنے کا ان کو حق حاصل ہوتا کہ اس کے احکام عربی زبان میں کیوں نہیں کھول کھول کر بتلائے گئے بھلا یہ کیا موزوں ہے؟ کہ کلام تو عجمی اور مخاطب عربی؟ درحقیقت یہ عذر ان کا ایک حد تک معقول بھی ہوتا اسی لئے اللہ نے جس کو نبی بنا کر بھیجا ہے اسی ملک کی زبان پر بولتا ہوا بھیجا جس ملک میں وہ قوم رہتی تھی یعنی وہ اپنی قوم کے محاورات بولا کرتا تھا کیونکہ مادری زبان میں تعلیم آسان ہوتی ہے اے نبی ! تو کہہ کہ اس قسم کی کجروی کو چھوڑو اور سیدھے ہو کر اس نعمت کی قدر کرو دیکھو یہ قرآن ماننے والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے ان کو پیش آمدہ امور میں رہنمائی کرتا ہے اور ان کے روحانی امراض‘ کفر‘ شرک‘ حسد‘ کینہ‘ ریا وغیرہ کی شفا ہے۔ آزما کر دیکھ لو۔ سنو ! کسی بیرونی چیز کے حاصل کرنے کے عموما دو ہی ذریعے ہیں۔ سننا اور دیکھنا ان دو ذریعوں سے آدمی نامعلوم چیز کو معلوم کرسکتا ہے۔ سو جو لوگ ایمان نہیں لاتے یعنی اس قران کو محض ضد اور نفسانیت سے نہیں مانتے قرآن کے سننے سے ان کے کانوں میں گویا ٹھوس ہے اس لئے تو وہ اس کو سن نہیں سکتے اور ان کی آنکھوں میں گویا اندھا پن ہے اس لئے وہ قرآن ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے ان کو دیکھتا نہیں یعنی نہ تو قرآن کے نشانات قابل سنے جانے کے سنتے ہیں نہ دیکھے جانے کے لائق نشانوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ان کے دونوں راستے بند ہیں کیوں بند ہیں ؟ انہوں نے قرآن کی مخالفت محض ضد اور نفسانیت سے کی اس لئے اب ان کی یہ حالت ہے کہ قرآن کے وعظ ونصحتیں کو یہ سنتے ہیں گویا یہ لوگ بڑی دور سے بلائے جاتے ہیں ایسے کہ بلانے والے کی آواز تو سنی جاتی ہے مگر مضمون مفہوم نہیں ہوسکتا۔ پھر عمل کریں تو کیسے۔ اسی کا اثر ہے کہ ان لوگوں کے اعتراضات بھی عجیب قسم کے ہوتے ہیں چنانچہ یہ لوگ کہتے ہیں بھلا اگر قرآن حق ہے اور ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں تو اللہ ہم کو تباہ اور ہلاک کیوں نہیں کردیتا۔ اس کے جواب میں ایک تاریخی واقعہ سنو ! ہم نے اس سے پہلے حضرت موسیٰ کو کتاب توریت دی تھی پھر اس میں بھی اختلاف ہوا۔ کسی نے مانا کسی نے انکار کیا تو کیا ہم نے سب منکروں کو یکدم تباہ کردیا تھا؟ نہیں بلکہ چند اشخاص (فرعون اور اس کے مشیر کار لوگوں) کو جو برسر شرارت تھے اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے حکم نہ گذرا ہوتا کہ جلدی میں سب کو تباہ نہیں کروں گا تو ان لوگوں میں یکدم فیصلہ کیا جاتا۔ کافروں کو تباہ برباد کر کے ان کی جگہ مؤمنوں کو بسایا جاتا۔ مگر ہمارے ہاں جلد بازی نہیں بلکہ قانون یہ ہے کہ جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے اور جو برا کرتا ہے وہ بھی اسی کی جان پر ہوتا ہے اس کا وبال بھی وہی اٹھاتا ہے اور تمہارا پروردگار بندوں کے حق میں ظالم نہیں ہے کہ بے جرم بھی ان کو سزا دے اور جرموں میں سزا کا اضافہ کر دے۔