سورة البقرة - آیت 34

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو ۔ (ف ١) تو سب نے سجدہ کیا ، سوائے ابلیس کے ، اس نے نہ مانا اور تکبر کیا ۔ اور وہ کافروں میں سے تھا ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

اور ایک واقعہ بھی اسی کے متعلق قابل شنید ہے جو گویا اس بیان کا تتمہ ہے سنو ! جس سے ہمارا کمال علمی ظاہر ہوجائے گا۔ سوچو توسہی کہ جب ہم نے تمام فرشتوں اور ان کے اتباع کو معہ ان کے حکم دیا تھا کہ آدم کی بزرگانہ تعظیم و پس سب نے تعظیم کی۔ مگر شیطان اس سے اترایا اور اپنے جی میں بڑا بن بیٹھا اور اپنے غرور میں اس حکم کے منکروں سے ہوگیا۔ جب ہی تو اپنے کئے کی پاداش کو پہنچا کہ بوجہ حسد بیجا کے ہمیشہ کے لئے ذلیل ہوا اس کے بعد بجائے اس کے کہ اس کے حسد سے آدم کا کچھ بگڑتا اسی کی عزت افزائی ہوئی گیا وہ ہمارا مہان ہوا (تعظیم کرو) اس آیت کے متعلق بھی ہمارے نامہربان پڑوسی آریہ وغیرہ نے دانت پیسے ہیں اور طرح طرح سے بے سمجھی کے سوالات کئے ہیں اور نئی توحید کے نشہ میں معلم التوحید قرآن شریف پر اعتراض کئے ہیں کہ وہ بت پرستی اور شرک سکھاتا ہے چنانچہ فرشتوں سے آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ کروایا۔ کعبہ کو پجوایا۔ موسیٰ ( علیہ السلام) نے آگ کو پوجا۔ طرفہ یہ کہ شیطان نے بوجہ توحید کے جو اس کے پہلے سے تعلیم ہوئی تھی سجدہ نہیں کیا۔ تو اس کو لعنتی گردانا وغیرہ وغیرہ۔“ باقی آیات کا جواب تو اپنے موقعہ پر آئے گا۔ بالفعل ہم اس آیت کے متلعق ان کی سمجھ کا پھیر بتلاتے ہیں۔ بھلا آدم ( علیہ السلام) کو سجدہ عبودیت کا تھا یا کچھ اور۔ اگر عبودیت کا تھا تو بے شک قرآن شرک کی تعلیم دیتا ہے اور اوّل درجہ کا مشرک ہے لیکن ایسا نہیں۔ بلکہ ایک تعظیمی سجدہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں سلام تعظیم کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر یہ عبادت ہوتا تو شیطان اپنی معذوری اور جواب دہی میں اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّاٍر وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ نہ کہتا بلکہ صاف کہتا کہ جناب والا یہ کیا انصاف ہے۔ کہ ہمیں ایک طرف تو شرک سے روکا جاتا ہے اور دوسری طرف اسی شرک کی تعلیم ہوتی ہے کیونکہ وہ تو بڑا ہی شیطان ہے اسے تو یہ عذر ضرور ہی سوجھنا چاہیے تھا۔ جب کہ اس کے شاگردوں کو ایسی سوجھتی ہے کہ پناہ بخدا۔ تو پھر استاد کو ایسی کیوں نہ سوجھی۔ بلکہ اس نے تو ایک معنی سے یہ سجدہ خود ہی جائز سمجھا۔ کیونکہ وہ اپنے رکنے کی وجہ یہ بتلا رہا ہے کہ میں اس سے اچھا ہوں اس لئے اسے سجدہ نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر آدم کو جو اس کے خیال میں اس سے ادنیٰ تھا۔ اس کو سجدہ کرنے کا حکم ہوتا تو شیطان کو اپنے لئے سجدہ کروانے میں کسی طرح کا تامل نہ ہوتا اور نہ تعلیم توحید اس سے مانع ہوتی۔ پس ان دونوں آیتوں کے ملانے سے معلوم ہوا کہ یہ سجدہ سجدہ عبادت نہ تھا۔ بلکہ محض ان معنے میں تھا جیسے کسی سردار یا نواب کا ماتحت ایک خاص وقت میں حاضر ہو کر اسلام کیا کرے۔ جس سے اس سردار کی رفعت اور ماتحتوں کی وفا داری کا ثبوت ہوتا ہے جو شیطان کو پسند نہ آیا (منہ)