سورة يس - آیت 31

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ کس قدر امتیں ان سے پہلے ہلاک کیں کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئے ؟

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(31۔38) کیا انہوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ ان سے پہلے کئی ایک قوموں کو جو ہم نے ہلاک اور برباد کیا ہے وہ ان کی طرف واپس نہیں آتے تو کیا ان کو مرنا نہیں ضرور ایک وقت ان کے لئے بھی مقدر ہے یقینا ہر ایک ہمارے حضور میں حاضر ہونے والا ہے تو آخر اس حاضری کا بھی کچھ خیال ہے اور اگر یہ لوگ اب بھی انکار ہی پر مصر رہیں تو ان کے لئے مردہ خشک زمین دلیل ہے جس کو ہم (اللہ) پانی سے زندہ یعنی تازہ کردیتے ہیں اور اس میں دانے اگاتے ہیں پھر اس میں سے یہ لوگ کھاتے ہیں اور ہم نے اس زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے ہیں نیز اس زمین میں چشمے جاری کئے ہیں تاکہ اس مذکور کے پھل کھائیں اور اللہ کا احسان مانیں وہ اتنا تو جانتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں نے اس پھل کو نہیں بنایا کیا پھر بھی وہ شکر نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ اس کی مخلوق کو شریک بنا کر کفران نعمت کرتے ہیں۔ پس یاد رکھیں جس (اللہ) نے زمین کی پیداوار کی کل اقسام اور خود ان انسانوں کے کل اقسام ایشائی یورپی وغیرہ اور اس کے سوا اور بھی جس کو یہ لوگ ابھی نہیں جانتے صحرائی اور دریائی جانور پیدا کئے ہیں وہ (اللہ) ان کے شرک و شراکت اور بیہودہ خیالات سے پاک ہے اس کی ذات والا صفات تک ان کے غلط خیالات کا واہمہ بھی نہیں پہنچ سکتا اور اگر سننا چاہیں تو ایک اور دلیل ان کو سنائو یہ رات کا وقت ہے جس میں سے ہم دن کی روشنی نکال لیتے ہیں یعنی روشنی کے بعد جب رات کا وقت آتا ہے تو فورا یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں یہ بھی ان کے لئے ہماری قدرت کی ایک دلیل ہے کہ اتنے بڑے اجرام فلکی آن کی آن میں ادھر سے ادھر کیسے آسانی سے چلے جاتے ہیں پھر ایسا انتظام اور ایسا عمدہ نظام کہ سورج جو اتنا بڑا ہے کہ ساری زمین سے اس کا اندازہ آج کل کے حساب سے چودہ لاکھ اسی ہزار درجے بڑا لگایا گیا ہے ممکن ہے آئندہ کو اس سے بھی بڑا ثابت ہو وہ بھی اللہ کے حکم کا ایسا محکوم کہ رات دن ایسا چکر میں ہے کہ گویا اپنے ٹھیرنے کی جگہ کے لئے چل رہا ہے یعنی وہ ہر وقت قدرت کے ماتحت ایسا متحرک ہے گویا اپنا ٹھکانہ تلاش کر رہا ہے جسامت تو اتنی بڑی اور حرکت اتنی تیز کہ اہل رصد کے حساب سے فی گھنٹہ اڑسٹھ ہزار میل رفتار کا حساب لگایا جاتا ہے باوجود اس جسامت اور اس سرعت کے کبھی اپنی لائن سے گرا نہیں نہ کبھی متخلف ہوا کیونکہ یہ اندازہ اللہ غالب اور علم والے کا ہے دنیا میں ریلوے اوقات بنانے والوں کے اندازے اس لئے غلط ہوجاتے ہیں کہ ایک تو انکو آئندہ کا علم نہیں ہوتا کہ کیا کیا موانعات پیش آئیں گے دوئم پیش آمدہ موانعات کو اٹھانے کی ان میں قدرت نہیں ہوتی مگر اللہ ذوالجلال میں دونوں باتیں ہیں علم اس کا جمیع موانعات گذشتہ اور آئندہ پر محیط ہے غلبہ اس کا تمام عالم پر مسلم ہے اس لئے اس کے اندازہ میں کسی طرح کا نقص نہیں آسکتا