سورة سبأ - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور جو زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کی تعریف ہے آخرت میں اور وہ حکمت والا خبردار ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔9) تمام تعریفوں کا مالک اللہ ہے۔ تمام آسمان اور زمین جس کے زیر حکومت ہیں انجام کار آخرت میں بھی تعریف کا وہی مستحق ہے اور وہ بڑا حکمت والا اور بڑا خبردار ہے اس کے علم کی وسعت کا اندازہ خود اسی سے کرلو کہ جو کچھ زمین میں بیج اور پانی وغیرہ گھستا ہے اور جو کچھ اس سے انگوری پانی وغیرہ نکلتا ہے اور جو کچھ اوپر کی طرف سے پانی وغیرہ نکلتا ہے اور جو کچھ اس کی طرف ابخرات کا دھواں وغیرہ چڑھتا ہے۔ اللہ ان سب کو جانتا ہے۔ غرض ایک ذرہ بھی اس کے علم اور ادراک سے باہر نہیں باوجود اس علم۔ قدرت اور حکومت کے یہ نہیں کہ وہ سخت خو اور ظالم ہو۔ نہیں بلکہ وہ بڑا رحم کرنے والا اور بخشنے والا ہے مگر نادان لوگو اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحم سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹے بگڑتے ہیں گویا مثل مشہور کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ کی تصدیق کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت کی گھڑی کبھی نہیں آئے گی۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ گویا ان کو کسی کی باز پرس نہیں جو چاہیں کرتے پھریں۔ اے نبی ! تو ان سے کہہ کہ تمہارا خیال بالکل غلط ہے واللہ وہ ضرور آئے گی مجھے اپنے پروردگار کی قسم ہے جو مخلوق کے ادراکات سے سب مخفیات کو جاننے والا ہے ایک ذرہ بھر چیز بھی نہ آسمانوں میں پوشیدہ ہے۔ نہ زمینوں میں اس سے مخفی رہ سکتی ہے اور اس سے بھی چھوٹی یا بڑی جو کچھ بھی ہے اللہ تعالیٰ کے روشن علم میں ہے اس وسیع علم کا نتیجہ ! یہ ہوگا کہ جو لوگ ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں ان کے لئے بخشش اور عزت کی روزی کا وعدہ ہے اور جو لوگ ہمارے (یعنی اللہ تعالیٰ کے) حکموں کی تکذیب کرنے میں مخالفانہ سعی کرتے ہیں انہی کے لئے قیامت میں سخت عذاب کا حصہ ہے اس سے ثابت ہوا کہ بنی آدم دو قسم پر ہیں ایک فرماں بردار دوسرے نافرمان جیسے کہ عام طور پر انسان دو طرح کے ہیں ایک علم دار دوسرے جاہل کندہ ناتراش ہر ایک ایسے کام میں جو غور وفکر کے لائق ہوتا ہے اس میں اہل علم کی رائے کا اعتبار ہوتا ہے اس لئے اہل علم یعنی جن لوگوں کو علم سے کچھ حصہ ملا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ جو کچھ ترای طرف تیرے پروردگار کے ہاں سے اترا ہے وہ بالکل سچ ہے اور اللہ غالب اور حمد و ثنا کے مستحق کی طرف راہ دکھاتا ہے۔ اہل علم کو تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی تعلیم سے ہدایت پاتے ہیں اور جو جاہل یعنی کافر اور منکر ہیں وہ ایکدوسرے سے کہتے ہیں آئو رے ہم تم کو ایک ایسا آدمی بتلائیں جو کہتا ہے کہ بعد مرنے کے بالکل ریزے ریزے ہو کر بھی تم کو ایک نئی پیدائش میں آنا ہوگا بھلا یہ بات عقل تسلیم کرسکتی ہے کسی کی سمجھ میں آتا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر پھر ہم کو نئی صورت اور شکل ملے گی پھر جو یہ مدعی نبوت کہتا ہے ایسی باتیں کہتا ہے تو کیا یہ اللہ پر جھوٹ افترا ر کرتا ہے یا اسکو جنون ہے غور سے دیکھا جائے تو کچھ بھی نہیں بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یعنی ایسا کہنے والے ہی عذاب میں اور ہدایت سے دور گمراہی میں ہیں اس سارے شبہ کی بنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ان کو یقین نہیں کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین پر بھی غور نہیں کیا؟ کہ یہ اتنے بڑے اجرام سماوی اور راضی کس نے بنائے ہیں جس نے اتنی بڑی مخلوق پیدا کی ہے اس سے مستبعد ہے کہ ان کو دوبارہ پیدا کر دے؟ اس آفاقی دلیل کے علاوہ و جدانی دلیل پر غور کریں کہ اگر ہم (اللہ) چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کے ٹکڑے ان پر گرادیں غرض کہ ہر طرح سے ان کی ذات اور صفات پر بقا اور فنا کی ہم کو قدرت ہے جو چاہیں ہم کریں ہم کو کوئی روکنے والا نہیں کچھ شک نہیں کہ اس بیان میں ہر ایک بندے کیلئے عبرت کی دلیل ہے جو اللہ کی طرف رجوع ہے