يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۗ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی ہم نے تیرے لئے تیری وہ عورتیں حلال کردی ہیں جن کا مہر تو دے چکا ہے اور وہ (لونڈیاں بھی) جو تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدائے تیرے ہاتھ کا مال ہے جو خدا نے تیرے ہاتھ لگوا دیا ہے ۔ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور تیری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور مومن عورت (بھی حلال ہے) اگر اپنی جان نبی کو بخش دے (ف 2) (یعنی بن مہر نکاح میں آنا چاہے) اگر نبی بھی اس کو نکاح میں لینا چاہے (توجائز ہے) یہ خاص تیرے ہی لئے ہے سوا اور ایمانداروں کے ہمیں معلوم ہے جو ہم نے ان پران کی بیویوں اور ان کے ہاتھ کے مال (لونڈیوں) کے حق میں فرض کیا ہے تاکہ تیرے اوپر تنگی نہ رہے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
(50۔51) اے نبی ! دیکھ تیری بیویاں جن کو تو نے حق مہر دیا ہے اور تیری لونڈیاں جو غنیمت میں اللہ نے تجھے رحمت کی تھیں تیرے چچا کی بیٹیاں تیری پھوپھی کی بیٹیاں تیرے ماموں کی بیٹیاں تیری خالائوں کی بیٹیاں جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی تھی اور ان کے علاوہ جو ایماندار عورت اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے یعنی نکاح میں دنیا چاہے بشرطیکہ نبی اس سے نکاح کرنا چاہے یہ سب کی سب ہم نے تیرے لئے بطریق نکاح حلال کی تھیں یہ بظاہر بے تعداد نکاح کرنے کی اجازت خاص تیرے لئے تھی اور مسلمانوں کے لئے نہیں کیونکہ وہ تیری طرح قدسی نفس نہیں ان کیلئے انکی بیویوں اور انکی لونڈیوں کے متعلق جو ہم نے حکم دے رکھے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں ان حکموں کا خلاصہ یہ ہے کہ حتی المقدور ایک ہی بیوی پر قناعت کریں اور اگر زیادہ کی ضرورت ہو تو محدود کریں علاوہ ان کے ان میں عدل و انصاف نہ کرسکیں تو متعدد نکاح نہ کریں مگر اے نبیٔ تو ان سب قیود سے بری ہے تاکہ تجھ پر کسی طرح کی تنگی نہ ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا رحم کرنیوالا ہے اس کی بخشش اور رحمت اسی کے متقاضی ہے کہ اپنے فرمانبرداروں پر من وجہ تخفیف کرے اسی تخفیف کا نتیجہ ہے کہ تجھے اجازت تھی کہ ان ازواج میں سے جس کو تو چاہے کچھ مدت تک الگ کر دے اور جس کو چاہے اپنے پاس بلا لے اور جن کو تو نے کسی وقت عتاب سے الگ کیا ہو ان میں سے بھی کسی کو حسب ضرورت طلب کرلے تو تجھ پر کسی قسم کا گناہ نہیں غرض تو اس میں آزاد اور مختار ہے یہ تیری آزادی اس لئے ہے کہ اس سے ان سب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور کسی طرح غمگین نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو ان کو دے اس پر سب راضی رہیں کیونکہ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب کیا کسی کا گلہ کرے کوئی جب انکو اپنے استحقاق کا گھمنڈ نہ ہوگا تو کم و بیش عطیے پر بھی راضی رہیں گی اور اللہ کو تمہارے دلوں کے خیالات سب معلوم ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا بڑے علم والا ہے باوجود جاننے کے گنہگار بندوں کو مواخذہ نہیں کرتا