وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ
اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے وقت اس سے کہا کہ بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا بےشک شرک البتہ بڑا ظلم ہے
(13۔19) اور ایک وقت وہ بھی تھا جب حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا ! میں تجھ کو سب سے مقدم بات بتلائوں جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے جس کے نہ کرنے کی صورت میں سب برائیاں تجھ میں آجائیں اس لئے وہ بڑی توجہ سے سننے کے قابل ہے غور سے سن کہ تو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو کبھی شریک نہ ٹھیرائیو اس لئے کہ کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا بڑا ظلم ہے کیونکہ ظلم کی ماہیت یہ ہے کہ حق دار کو حق نہ دینا پس جتنا کسی کا حق زیادہ ہوا اور جتنا کوئی بڑا محسن ہو اس کی حق تلفی اتنا ہی بڑا ظلم ہوگا یہی باعث ہے کہ بہن بھائی کے ساتھ بدسلوکی کرنے سے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کرنا بہت برا ہے چونکہ اللہ سے بڑا محسن کوئی نہیں پس اس کی حق تلفی کرنا یعنی اس کا شریک ٹھیرنا سب حق تلفیوں سے بڑی حق تلفی ہے اس لئے یہ کہا گیا کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے اس لقمانی نصیحت کی ضرورت اور تاکید تو خود اس سے ظاہر ہے کہ ہم (اللہ) نے خود انسان کو ماں باپ کے حق میں نیک سلوک کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے کہ میرا (اللہ کا) شکریہ اور اپنے ماں باپ کا شکریہ کیا کر کیونکہ باپ کا احسان تو ظاہر ہے کہ وہ پرورش کرتا ہے ماں کا احسان یہ ہے کہ اس کی ماں نے اس کو ضعف کی حالت میں پیٹ کے اندر اٹھایا اور بعد وضع حمل کے اس کو اپنا خون دودھ کے ذریعے پلایا یہاں تک کہ دوسال میں اس کا دودھ کہیں جا کر چھوٹتا ہے اتنی مدت گویا ماں کا خون پیتا ہے اس لئے اس کو حکم دیا کہ ماں باپ سے نیک سلوک کیا کر مگر ایسا سلوک کرنے میں بھی مراتب کا لحاظ رکھیو اور دل میں یہ بات جما رکھیو کہ آخر کار میری طرف سب کی واپسی ہے پس اس سفر کیلئے تیار رہیو اور تیرے دل میں کہیں یہ خیال نہ آجائے کہ جب ماں باپ کا یہ حق ہے تو جو کچھ یہ کہیں سب واجب التسلیم ہے نہیں بلکہ ہر نکتہ مکانے دار دو چونکہ میں (اللہ) ماں باپ سے بھی بڑا مربی ہوں اس لیے میرے حقوق کا سب سے مقدم خیال رکھو کہ اگر تیری ماں باپ تجھ پر زور کریں کہ میرے ساتھ ان چیزوں کو شریک ٹھیرا جن کے شریک ہونے کا ان کو اور تجھ کو علم نہیں جیسے وہ محض تقلید آبائی سے لکیر کے فقیر بنے چلے آتے ہیں تجھے بھی اسی طرح چلانا چاہیں تو اس کام میں تو ان کا کہا نہ مانیو اور دنیا کے کاموں میں انکے ساتھ اچھی طرح رہیو اور دین کے کاموں میں تم ان لوگوں کی راہ پر چلیو جو میری (اللہ ١ ؎ کی) طرف رجوع ہوں خواہ کوئی ہوں کسی ملک کے رہنے والے ہوں کسی قوم کے افراد ہوں اس میں کسی شخص یا قوم کی خصوصیت نہیں کیا تم نے شیخ سعدی کا کلام نہیں سنا ؎ مرد باید کہ گبر داندر گوش درنبشت است پند بردیوار پس تم ہمیشہ اس بات پر مستعد رہو کہ اللہ لگتی سچ بات جس کی ہو قبول کرلو اور دل میں یہ خیال رکھو کہ تم سب نے بعد مرنے کے میری طرف پھر کر آنا ہے پھر میں تم لوگوں کو تمہارے اعمال کی خبر بتلائوں گا خیر یہ تو درمیان میں ایک جملہ معترضہ تھا جو اس غرض سے لایا گیا ہے کہ حضرت لقمان کی نصیحت کا تتمہ تم لوگوں کو سنایا جائے کہ شرک ایسی غلط راہ ہے کہ ماں باپ بھی اس طرف لے جائیں تو نہ جانا چاہئے اب سنو ! بقیہ نصیحت حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اے بیٹا ! کسی گناہ کو بھی کم درجہ خیال کر کے مغرور نہ ہوجیو گناہ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ بالفرض کہیں بڑے پتھر کے نیچے یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر کہیں مخفی ہو تو بہر حال اللہ اس کو تیرے سامنے لے آوے گا سن رکھ ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے اے میرے بیٹے ! گناہوں سے بچنے کے علاوہ تو عبادت میں بھی کوشش کیا کر سب سے مقدم یہ ہے کہ تو نماز ہمیشہ پڑھا کریو اور لوگوں کو بھی نیک کام بتلایا کیجئیو اور بری باتوں سے منع کیا کریو اور ایسا کرنے پر جو کچھ تجھے تکلیف پہنچے اس پر صبر کیجئیو یہ کام کہ خود بھی نیک عمل کرنا لوگوں کو بھی نیک کام بتلانا اور تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا بے شک ہمت کے کام ہیں یہ تو ہیں مذہبی احکام یہ نہ سمجھیو کہ بس نماز روزہ ہی تم پر فرض ہیں اور کچھ نہیں ایسا خیال تو ان کوڑ مغز ملانوں کا ہے جو اسرار شریعت سے نا واقفی کے باعث اپنے معمولی نماز روزہ پر نازاں ہو کر اخلاقی حصے سے بے پروا ہوجاتے ہیں حالانکہ تمام حضرات انبیاء اخلاق کو تعلیم میں ساتھ بلکہ مقدم جانتے تھے اس لئے تجھ کو میں (لقمان) نصیحت کرتا ہوں کہ تو مارے تکبر کے لوگوں سے منہ نہ پھیریو۔ کوئی غریب آدمی یا کم درجے کا تجھ سے ملنا چاہے تو تو اس سے بے رغبتی کے ساتھ پیش نہ آیا کر بلکہ خوش اخلاقی کے ساتھ ہر ایک سے برتائو کیا کر اور زمین پر اتراتا ہوا نہ چلا کریو یعنی متکبرانہ زندگی نہ گذاریو دل کے کان لگا کر سن رکھ کہ اللہ تعالیٰ تکبر اور فخر کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا یعنی ایسے لوگ اس کی نگاہ میں معزز نہیں ہیں خواہ دنیاوی حیثیت سے کیسے ہی عزت دار ہوں مگر یہ عزت ان کی بالکل خواب و خیال ہے اصل عزت وہ ہے جو اللہ کے ہاں حاصل ہو جس کو دوام ہے اور سن ! اپنی روش میں میانہ روی اختیار کیجئیو ہر بات میں رفتار میں گفتار میں انفاق امساک میں غرض تمام عمر اپنی میانہ روی میں گذاریو اور معمولی گفتگو میں بھی اپنی آواز کو پست کریو نہی خواہ مخواہ چلایا نہ کر کہ دوسرا سن کر تنگ آئے یاد رکھو کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی ہے جو بلندی اور ناپسندیدگی میں نظیر نہیں رکھتی پس تم گدھے کی طرح چلا کردوسرے کا مغز نہ چاٹا کرو تم جانتے نہیں کہ یہ کس مالک الملک کے حکم ہیں یہ اسی اللہ کے احکام ہیں جو تمام دنیا کا منتظم حقیقی ہے