وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ نے تجھے پسند کیا اور تجھے پاک کیا اور جہان کی عورتوں پر تجھے برگزیدہ کیا ۔ (ف ١)
(42۔54)۔ اب خاص ایک قصہ حضرت مسیح کی ماں کا بھی سنو جس سے ان دونوں گروہوں یہودو نصاریٰ کی غلطی تم پر واضح ہوجائے گی جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھے چنا ہے اور بری خصلتوں شرک کفر بداخلاقیوں سے پاک کیا ہے اور جہان کی موجودہ عورتوں پر تجھے بزرگی دی ” اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ایک ایسے بزرگ اور پاک آدمی کی پیدائش کا اجمالی بیان کرتا ہے جس کی پیدائش وفات بلکہ کل زندگی کے واقعات میں لوگوں کی مختلف رائیں ہو رہی ہیں عموماً ہر ایک شخص سے یہ معاملہ تو ہوتا ہے کہ اس کے دوست دشمن کی آراء مختلف ہوتی ہیں۔ مگر یہ بزرگ (سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) اس بات میں بھی سب سے نرالے ہیں۔ یہود ان کے دشمن (بلکہ دراصل اپنے دشمن) تھے ان کی رائے ان کی نسبت مخالفانہ تو اسی اصل (عداوت) کی فرع اور کسی شاخ کا ثمر ہے مگر ان کے نادان دوستوں (عیسائیوں) نے بھی آپ کی نسبت دراصل مخالفانہ ہی رائے لگائی جس کا ذکر اپنے موقع پر آئے گا۔ طرفہ یہ کہ جس مسئلہ (بے باپ ولادت) کے لئے یہ حاشیہ تجویز ہوا ہے اس میں سب کے سب ایک زبان متفق ہیں گو ان کے اتفاق کی بنا مختلف ہی کیوں نہ ہو آپ کے مخالف یہود تو اس حیثیت سے آپ کو بے باپ (حقیقی) مانتے ہیں کہ وہ جناب کی پیدائش بدگمانی اور گستاخی سے ناجائز طور کی کہتے ہیں۔ عیسائیوں نے تو جناب والا کی نسبت عجیب عجیب بعید از قیاس باتیں گھڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بیٹا تو ان کے ہاں عام طور پر زبان زد ہے۔ باپ کے ہونے کے وہ بھی زمانہ شروع اسلام سے آج تک اسی امر کے قائل ہیں کہ مسیح بے باپ پیدا ہوئے تھے مگر اس زمانہ خیر میں سرسید احمد خاں مرحوم نے اس سے انکار کیا ہے فرماتے ہیں کہ وہ بے باپ نہ تھے بلکہ مثل دیگر بچوں کے ماں باپ دونوں سے پیدا ہوئے تھے اس لئے اس حاشیہ میں ہم مسیح کی ولادت کے متعلق دو طرح سے بحث کریں گے ایک ان آیات سے جن میں مسیح کی ولادت مذکور ہے۔ دوسری ان بیرونی شہادتوں سے جن کو سید صاحب بھی کسی قدر معتبر جانتے ہیں۔ اسی سورۃ آل عمران میں یوں فرمایا۔ اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللّٰہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسے ابن مریم وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین٭ ویکلم الناس فی المھد وکھلا ومن الصالحین٭ قالت رب انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشرط قال کذٰلک اللّٰہ یخلق مایشاء اذا قضی امرا فانما یقول لہ کن فیکون (سورہ آل عمران آیات ٤٥ تا ٤٧) جب فرشتے نے کہا اے مریم بیشک اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے جس کا نام عیسے مسیح مریم کا بیٹا دنیا اور آخرت میں معزز اور (اللہ کے) مقربوں سے ہوگا اور لوگوں سے گہوارہ اور بڑھاپے میں کلام کرے گا اور وہ نیکو کاروں سے ہوگا۔ مریم نے کہا اے میرے رب مجھے کس طرح سے لڑکا ہوگا حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا فرشتے نے کہا تو ایسی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے اتنا ہی کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے “۔ دوسری جگہ سورۃ مریم میں اس سے بھی کسی قدر مفصل بیان ہے۔ واذکر فی الکتاب مریم اذ انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا٭ فاتخذت من دونھم حجابا فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا٭ قالت انی اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا ٭ قال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا٭ قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا٭ قال کذلک قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا٭ فحملتہ فانتبذت بہ مکانا قصیا٭ فاجاء ھا المخاض الی جذع النخلۃ قالت یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا فنا داھا من تحتھا ان لاتحزنی قد جعل ربک تحتک سریا٭ وھزی الیک بجذع النخلۃ تساقط علیک رطبا جنیا٭ فکلی واشربی وقری عینا فاما ترین من البشر احد فقولی انی نذرت للرحمن صوما فلن اکلم الیوم انسیا (سورہ مریم آیات ١٦ تا ٢٣) ” مریم کا ذکر کتاب میں بیان کر جس وقت وہ اپنے گھر والوں سے مشرق کی جانب ہوگئی اور ان سے ورے ایک پردہ اس نے بنا لیا۔ پس اسی حال میں ہم نے اپنا رسول (جبرئیل) اس کی طرف بھیجا وہ کامل آدمی کی شکل میں اس کے سامنے آیاوہ (مریم بوجہ اپنی پاکدامنی کے) اس سے بولی کہ میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں ہوں (یعنے تیرے سامنے آنے کو پسند نہیں کرتی) اگر تو نیک ہے (تو آگے سے ہٹ جا) وہ بولا میں آدمی نہیں ہوں بلکہ) تیرے رب کا قاصد ہوں کہ تجھے ایک لڑکا ہونے کی خبر دوں۔ مریم نے کہا مجھے لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ مجھے نہ تو خاوند نے چھوا ہے اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا تو ایسی ہی ہے تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھ پر یہ کام آسان ہے اور ہم ایسا ہی کریں گے تاکہ اس کو لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی رحمت بنا دیں اور یہ کام تو ہوا ہے۔ پس مریم حاملہ ہوئی پھر وہ دور کی جگہ میں چلی گئی پھر وہ درد زہ کی وجہ سے درخت کھجور کے پاس آئی تو بولی ہائے افسوس میں اس سے پہلے ہی مر کر بھولی بسری ہوجاتی پس فرشتے نے اسے اس سے نچلے مکان سے پکارا کہ تو غم نہ کر تیرے رب نے (تیرے لئے) تیرے نیچے نہر جاری کردی ہے اور اپنی طرف کھجور کے تنے کو ہلا وہ تجھ پر تروتازہ کھجور گرائے گی پھر تو کھائیو اور پانی پیجیئو اور خوش رہئیو۔ اگر کسی آدمی کو دیکھے تو (اشارہ سے) کہہ دیجیئو کہ میں نے اللہ کے لئے منہ بند رکھنے کی نذر مانی ہے۔ پس میں آج تمام دن کسی سے نہ بولوں گی یہ سب باتیں اشارہ سے کہیئو “۔ سورۃ آل عمران میں صرف اسی قدر اشارہ ہے۔ ان مثل عیسٰے عند اللّٰہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (سورہ آل عمران آیت ٥٩) مسیح اللہ کے نزدیک آدمی کی طرح ہے جس کو مٹی سے بنا کر ہوجا کہا وہ ہوگیا۔ ان آیات کریمہ پر کوئی حاشیہ لگانے کی حاجت نہیں اردو ترجمہ جو لفظی ترجمہ ہے ان کا مطلب صاف بتلا رہا ہے پس جو مطلب ناظرین اردو سے سمجھے ہوں گے وہی مطلب عرب کے فصیح بلیغ باشندے قرآن مجید کا سمجھتے تھے۔ ہمارے خیال میں ہی مسئلہ (دلات مسیح) بعد بیان ان آیات کے ناظرین کے فہم و فراست اور انصاف پر چھوڑنے کے لائق ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ سید صاحب یا ان کے دوست رنجیدہ نہ ہوں کہ ہمارے عذرات قوم تک نہیں پہنچائے اسی نے کسی قدر شرح کر کے آپ کے عذرات (رکیکہ) مع جوابات معروض ہوں گے۔ پہلی اور دوسری آیت اس امر پر متفق اور یک زبان ہیں کہ مریم ( علیہ السلام) نے لڑکے کی خوشخبری سن کر اسے اپنے مناسب حال نہیں سمجھا بلکہ سخت لفظوں میں اس سے انکار کیا اور استعجاب بتلایا کہ مجھ جیسی کو لڑکا کہاں سے ہوسکتا ہے جس کو کسی مرد نے نہیں چھوا (در صورت حمل متعارف ہونے کے (جیسا کہ سید صاحب کا خیال ہے) فرشتے کی طرف سے یا اللہ کی جانب سے اس کا یہ جواب ملنا کہ اللہ پر یہ کام آسان ہے دانائوں کی توجہ چاہتا ہے ہاں اگر یہ جواب فرشتے کی طرف سے ہوتا کہ گو ابھی تک مرد نے تجھے نہیں چھوا لیکن چھونا ممکن ہے“ تو اس سے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی تسلی ہوجاتی اور سید صاحب کو بھی متعدد صفحات لکھنے کی تکلیف نہ ہوتی اب جائے غور ہے کہ بجائے اس جواب کے یہ جواب دینا کہ بیشک تو ایسی ہے لیکن اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس کو بھی مدلل اور مفصل کر کے بیان کیا کہ اللہ جب کبھی کسی چیز کا ہونا چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے اگر سید صاحب کا خیال (کہ مسیح بطریق متعارف پیدا ہوئے تھے ٹھیک ہو تو کچھ شک نہیں کہ یہ جواب طول طویل مریم کے استبعاد کے متعلق نہیں ہوسکتا بلکہ ” سوال از آسمان جواب از ریسماں“ کا مصداق ہے۔ پھر مریم ( علیہ السلام) کے بچہ کو اٹھا لانے کے وقت قوم کا طعن مطعن شروع کرنا اور طعن میں ایسے الفاظ بولنا جو اس پاکدامن کی عصمت میں خلل انداز ہوں یعنے نہ ” تیرا باپ زانی تھا نہ تیری ماں بدکار زانیہ تھی“ صاف ثابت کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی ولادت کے وقت یہودیوں کا گمان فاسد ناجائز طور پر مولود پیدا ہونے کا تھا۔ جس کو حضرت مسیح نے اپنے جواب میں دفع کیا کہ میں اللہ کا نبی ہوں مجھے اس نے کتاب دی ہے اس لئے کہ بموجب کتب بنی اسرائیل حرامی بچہ دس پشت تک اللہ تعالیٰ کا نبی نہیں ہوسکتا۔ میں جب نبی ہوں تو حرامی کیسے ہوسکتا ہوں۔ افسوس کہ سید صاحب نے اس جواب پر غور نہیں کیا اس لئے جھٹ سے اعتراض جما دیا کہ ” اگر اس وقت یہودیوں کی مراد اس سے تہمت بدنسبت حضرت مریم ( علیہ السلام) کے اور ناجائز مولود ہونے کی نسبت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ہوتی تو ضرور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اپنے جواب میں اپنی اور اپنی ماں کی بریت اس تہمت سے ظاہر کرتے۔ جلد دوم ص ٣٧ و ٣٨ طبع جدید ص ٣٣۔ (کتاب استثناء ٢٣ باب کی ٢ آیت (منہ) ہم نے بتلا دیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنی ماں کی بریت عمدہ طبع سے فرمائی ہے۔ سید صاحب نے ہمارے پہلے طریق استدلال (یعنے عدم مطابقت سوال بجواب) کی طرف تو خیال ہی نہیں کیا تھا اور اس امر پر شاید غور کرنے کا انہیں اتفاق ہی نہیں ہوا اگر ہوتا تو غالباً تصویر کا رخ دوسرا ہوتا البتہ دوسری طرز استدلال کی طرف کسی قدر متوجہ ہو کر فرمایا ہے۔ ” یہودیوں کے اس قول سے بھی کہ یَا مَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا۔ یَا اُخْتَ ھَارُوْنَ مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَماَ کَانَتْ اُمُّکٍ بَغِیًّا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بن باپ کے پیدا ہونے پر استدلال نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس زمانہ میں جب کہ یہودیوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) سے یہ بات کہی کوئی بھی حضرت مریم پر بدکاری کی تہمت نہیں کرتا تھا طبع جدید ص ٣٢ جلد ٢ “ سید صاحب کو ایسی غفلت مناسب نہ تھی ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠ پر آپ خود مانتے ہیں کہ ” یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے نعوذ باللہ حضرت مریم ( علیہ السلام) پر جو بہتان باندھا تھا وہ یوسف کے ساتھ نہ تھا بلکہ پنتراٹامی کے ساتھ منسوب کیا تھا کیونکہ یوسف ان کے شرعی شوہر ہوچکے تھے “ صفحہ ٢٠ کچھ دور نہیں تھا یہاں پر آپ کا اس کو بھول جانا کلام الٰہی لِکَیْلَا یَعْلَمَ من بعد علم شیئا کی تصدیق ہے۔ اگر فرما دیں کہ ص ٢٠ کی عبارت ولادت کے متعلق ہے اور ص ٣٢ پر جو انکار ہے وہ اس وقت کے متعلق ہے جب حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائی تھیں دونوں عبارتیں مجھے یاد ہیں میں بھولا نہیں۔ ہمارا مدعا بھی یہی ہے کہ وقت ولادت یہودیوں نے مریم ( علیہ السلام) پر تہمت لگائی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ان کے نزدیک ناجائز مولود تھے جس سے ہمارا دعویٰ (بے باپ ولادت مسیح) تقویت پذیر ہے۔ آپ کا فرمانا کہ نہ اس آیت میں اس قسم کی تہمت کا ارشارہ ہے حیرت افزا ہے۔ کاش آپ اس ” آیت کی بجائے“ قرآن میں کا لفظ لکھ دیتے تو مدت تک فیصلہ ہوجاتا کوئی مخالف آپ کے سامنے وَقَوْلِھِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُھْتَانًا عَظِیْمًا پیش نہ کرسکتا سید صاحب اب بھی موقع ہے معاملے طے کردیں۔ مٹا نہ رہنے دے جھگڑے کو یار تو باقی رکے ہے ہاتھ ابھی ہے رگ گلو باقی آپ فرماتے ہیں۔ فری کے معنی بدیع و عجیب کے ہیں۔ اس لفظ سے غالباً یہودیوں نے مراد ہوگی شیئاً عظیماً منکراً مگر اس سے یہ بات کہ انہوں نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی نسبت ناجائز مولود ہونے کی تہمت کی تھی لازم نہیں آتی بلکہ قرینہ اس کے برخلاف ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اس کے جواب میں اس تہمت دے بری ہونے کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا ص ٢٧ طبع جدید ص ٣٢ “ بیشک کہا ملاحظہ ہو ص ٢٧ تفسیر ثنائی جلد ہذا۔ اس جواب میں بھی حسب عادت قدیمہ مطلب سے تجاہل عارفانہ کر گئے ہیں فری کے معنی کرنے میں وقت کھو دیا حالانکہ ان نالائقوں کے صریح الفاظ تھے کہ اے مریم تیرا باپ زانی نہ تھا تیری ماں زانیہ بدکار نہ تھی تو ایسا لڑکا بقول سید صاحب) اوپرا کہاں سے لے آئی۔ کیا اس قدر مغلظ الفاظ کسی نے اپنی بیگانی لڑکی کی نسبت کہے ہیں یا کہتے سنا؟ یہودیوں کے یہ الفاظ کہنے کی وجہ سرسید یوں بیان کرتے ہیں “ ” جب انہوں (حضرت مسیح) نے بیت المقدس میں یہودی عالموں سے گفتگو کی اس بات پر یہودی عالم ناراض ہوئے اور انہوں نے آکر حضرت مریم ( علیہ السلام) سے کہا کہ تیرے ماں باپ تو بڑے نیک تھے تو نے یہ کیسا عجیب یعنی بد مذہب لڑکا جنا ہے حضرت مریم ( علیہ السلام) نے خود اس کا جواب نہیں دیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اٹھا لائیں (گود میں یا کندھوں پر) اس وقت انہوں نے فرمایا کہ اِنِّیْ عَبْدُاللّٰہِ اٰتَانِیَ الْکِتٰبَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا : ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١ “ افسوس سید صاحب ! یہ مسئلہ حل نہ ہوگا جب تک آپ صریح الفاظ کو نہ لیں گے اور ان کے متبادل ترجمہ کو تسلیم نہ کریں گے جو واقعی قابل تسلیم ہے۔ آپ کے بیان مذکورہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کی بدزبانی پہلے سن کر حضرت مریم ( علیہ السلام) مسیح کو اٹھا لائیں مگر قرآن کریم کے بیان سے ظاہر ہے کہ مریم کا بچہ کو اٹھا کر لانا پہلے ہے اور یہودیوں کی بدزبانی پیچھے۔ دیکھو تو کیا وضاحت سے ارشاد ہے کہ۔ فاتت بہ قومھا تحملہ قالوا یا مریم لقد جئت شیئًا فریًّا ” پس اس (مسیح) کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائی وہ بولے کہ اے مریم تو تو عجیب چیز لائی ہے “ سید صاحب ان باتوں سے بجز اس کے کہ علماء میں ہنسی ہو کیا فائدہ آپ اپنا عندیہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ اس کھینچ تان سے آپ کا مطلب کیا ہے کہ جہاں آپ کو کچھ نہیں سوجھتا وہاں خواب میں چلے جاتے ہیں چنانچہ حضرت مریم (رض) کی فرشتے سے گفتگو کو جو آپ کے مذہب کے خلاف تھی (کیونکہ فرشتوں کے وجود خارجی سے آپ منکر ہیں) خواب کا واقعہ بتلایا ہے اور اس کی نسبت یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ” سورۃ مریم میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی رویا (خواب) کا واقع بیان ہوا ہے کہ انہوں نے انسان کی صورت دیکھی جس نے کہا کہ میں اللہ بھیجا ہوا ہوں تاکہ تم کو بیٹا دوں طبع جدید ص ٣١ “ جناب ! خواب کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ اسی برتے پر آپ علماء کو یہودیوں کے مقلد شہوت‘ پرست‘ زاہد‘ کوڑ مغز ملا وغیرہ وغیرہ الفاظ بخشا کرتے ہیں اللہ رے ایسے حسن پہ یہ بے نیازیاں بندہ نواز آپ کسی کے اللہ نہیں آپ ہی بتلا دیں اگر کسی صحیح روایت کے اعتبار پر بات کہنے سے یہودیوں کا مقلد بننا لازم آتا ہے تو بے ثبوت بات کہنے پر کس کار خیر اس کا فیصلہ۔ تو ہم آپ کے جدا مجد (فداہ ابی و امی) کے روبرو کرائیں گے انشاء اللہ۔ اب ہم اس مسئلہ (ولادت مسیح) کے متعلق بیرونی شہادتیں دریافت کرتے ہیں اس میں تو کچھ شک نہیں کہ یہود و نصاریٰ اور مسلمان سب کے سب اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت مسیح بے باپ ہیں عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبت تو آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان دونو خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے عام انسانی پیدائش کے برخلاف بغیر باپ پیدا ہوئے تھے ص ٢٢ جلد ٢ طبع جدید ص ١٥ رہے یہودی سو ان کی بابت قرآن سے ثابت ہے کہ مسیح کی ولادت کو کیسے مغلظ الفاظ سے بیان کرتے تھے پس حضرت مسیح کے حالات دیکھنے والے یہود۔ نصاریٰ دونوں قومیں جو ان کے حالات کو تحقیق کرنے میں ہم سے زیادہ مشغول تھیں (گو اغراض ان کی مختلف ہوں یہود بوجہ عداوت اور نصاریٰ بوجہ عقیدت) ان دونو کا اس امر پر اتفاق ہونا کہ جناب مسیح کا باپ نہیں قابل غور نہیں؟ اس اتفاق کی تائید ان کی کتابوں سے بھی ہوتی ہے۔ انجیل متی میں صاف بیان ہے۔ ” اب یسوع مسیح کی پیدائش یوں ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوئی تو ان کے اکٹھا آنے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی۔ تب اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور نہ چاہا کہ اسے تشہیر کرے ارادہ کیا کہ اسے چپکے سے چھوڑ دے۔ وہ ان باتوں کی سوچ ہی میں تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے اس پر خواب میں ظاہر ہو کر کہا اے یوسف ابن دائود اپنے جورو مریم کو اپنے یہاں لے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سو روح القدس ہے“ انجیل متی باب اول درس ١٨۔ انجیل لوقا میں یوں مذکور ہے۔ اور چھٹے مہینے جبرئیل فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا بھیجا گیا ایک کنواری کے پاس جس کی یوسف نامی ایک مرد سے جو دائود کے گھرانے سے تھا منگنی ہوئی تھی اور اس کنواری کا نام مریم تھا اس فرشتے نے اس کے پاس اندر آ کے کہا کہ اے پسندیدہ سلام ! اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ تو عورتوں میں مبارک ہے۔ پر وہ اسے دیکھ کر اس کی بات سے گھبرائی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے۔ تب فرشتے نے اس سے کہا کہ اے مریم مت ڈر کہ تو نے اللہ کے حضور فضل پایا اور دیکھ تو حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام یسوع رکھے گی وہ بزرگ ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا بیٹا (نیک بندہ) کہلائے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے باپ دائود کا تخت اسے دے گا اور سدا یعقوب کے گھرانے کی بادشاہت کرے گا اور اس کی بادشاہت آخر ہوگی۔ تب مریم نے فرشتے سے کہا یہ کیونکر ہوگا جس حال میں میں مرد کو نہیں جانتی فرشتے نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر اترے گی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر ہوگا اس سبب سے وہ قدوس بھی جو پیدا ہوگا اللہ کا بیٹا کہلائے گا۔ انجیل لوقا باب اول درس ٢٦۔ (یہ ایک انجیلی محاورہ ہے کہ نیک بندوں کو اللہ تعالیٰ کے فرزند کہا جاتا ہے انجیل متی۔ ٥ باب۔ منہ) اس صاف اور سیدھے بیان انجیل کو بھی سید صاحب نے ٹیڑھا بنانا چاہا آپ فرماتے ہیں۔ ” اس بات کو خود حواری حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے اور تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا خطبہ یوسف سے تھا۔ یہودیوں کے ہاں خطبہ کا یہ دستور تھا کہ شوہر اور زوجہ میں اقرار ہوجاتا تھا کہ اس قدر میعاد کے بعد شادی کریں گے یہ معاہدے حقیقت میں فقد نکاح تھے زوجہ کا گھر میں لانا باقی رہ جاتا تھا۔ یہودیوں کے ہاں اس رسم کے ادا ہونے کے بعد مرد اور عورت باہم شوہر اور زوجہ ہوجاتے تھے یہاں تک کہ اگر بعد اس رسم کے اور قبل رخصت کرنے کے ان دونوں میں اولاد پیدا ہو تو وہ ناجائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھیں شاید خلاف رسم بات ہونے سے معیوب گنی جاتی ہوگی اور دونوں کو ایک شرم اور خجالت کا باعث ہوگی خلاصہ ص ٢٧ طبع جدید ص ١٩ جس سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ” پس کوئی وجہ اس بات کے خیال کرنے کی نہیں ہے کہ یوسف فی الواقع حضرت مسیح کے باپ نہ تھے متی کی انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ یوسف نے جب دیکھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) حاملہ ہیں تو ان کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا اگر یہ بیان (متی کا) تسلیم کیا جاوے تو اس کا سبب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عام رسم کے برخلاف حاملہ ہوجانے سے یوسف کو رنج اور خجالت ہوئی ہوگی جلد ٢ ص ٢٨ طبع جدید ص ٢٠ جناب سیادت مآب ایسی باتوں سے کیا فائدہ یوں تو ہم نے بھی ٹھیکہ نہیں لیا کہ آپ کو خاموش ہی کرا کے رہیں گے مگر آخر جہاں تک آپ کے جدا مجد (فداہ روحی) کی محبت کا ہمیں جوش ہے آپ کی حق ادائی کریں گے گو کسی استاد قول ؎ ملاآں باشد کہ چپ نہ شود“ صحیح ہے۔ بھلا حضرت ! اگر مریم ( علیہ السلام) کو خلاف رسم حمل تھا اور وہ حمل شرعاً درست اور بالکل بے عیب تھا جیسا آپ بھی ص ٢٧ پر تسلیم کر آئے ہیں تو یوسف اس پر اس قدر رنجیدہ کیوں ہوا کہ اس بیچاری حاملہ کے چھوڑنے پر کمر بستہ ہوگیا۔ آخر وہ اتنا تو جانتا ہوگا کہ یہ کرتوت ساری میری ہے۔ بالفرض اگر اس کو خلاف رسم حمل ہونے سے شرم تھی تو فرشتے نے خواب میں آکر اس کی کیا تسلی کی کہ اے یوسف ابن دائود اپنی جورو مریم کو یہاں سے آنے سے مت ڈر کیونکہ جو اس کے رحم میں ہے سوروح القدس سے ہے۔ متی باب ١ آیت ٢ کیا اس سے وہ حمل وہ خلاف رسم سے ہوا تھا موافق رسم ہوگیا ایسے فرشتے کو یوسف خواب ہی میں جواب دے دیتا کہ حضرت جس خجالت کی وجہ سے میں اسے چھوڑتا ہوں وہ روح القدس سے حاملہ ہونے سے تو نہیں جاسکتی۔ میں تو اس لئے چھوڑتا ہوں کہ خلاف رسم حمل ہے۔ میری رسومات متعلقہ شادی ابھی باقی ہیں۔ میں روح القدس کو کیا کروں میں اس شرم کے مارے پانی پانی ہوئے جاتا ہوں آپ مجھے روح القدس کا راگ سنائے جاتے ہیں۔ افسوس ! سید صاحب نے جیسا حضرت مریم کے سوال اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ کے جواب کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَایَشَآئُ پر غور نہیں فرمایا اسی طرح اس پر بھی تدبر سے کام نہیں لیا اس امر پر بھی سید صاحب بحوالہ انجیل متی ولوقا مصر ہیں کہ مسیح کو ابن دائود ابن ابراہیم کہا گیا ہے ص ٢٤ اور قرآن میں ابراہیمی ذریت سے ہونا ثابت ہوتا ہے ص ٢٥ نہیں معلوم ایسے صریح بیانات کے مقابلہ میں ایسے ضعیف احتمالات کیا مفید ہوسکتے ہیں سید صاحب ! اصول شاشی میں بھی لکھا ہے کہ عبارت النص اشارہ وغیرہ پر مقدم ہوتی ہے فافہم جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ صریح بیان ہر طرح سے ایسی تاویلات پر مقدم ہوتا ہے پس جب کہ صریح بیان انجیلی اور قرآنی دونوں اس پر (بشرطیکہ انصاف ہو) متفق ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بے باپ تھے تو ایسی تاویلات رکیکہ کی کیا قدر ہوگی حالانکہ قرآن کریم میں نواسے کو بھی بیٹا کہا گیا ہے جہاں مباہلہ کا حکم ہوتا ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ آئو ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں بلا کر مباہلہ کریں جس پر آنحضرتﷺ نے اپنے نواسوں کو بلا کر مباہلہ کرنا چاہا تھا اور سیدنا حضرت حسن (رض) کو حضور نے اٹھا کر فرمایا تھا کہ میرے اس بیٹے کی طفیل اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ کتب الفتن جلد ٢ ص ١٠٥٣ (دیکھو صحیح بخاری) تو کیا امام حسن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹے تھے نہیں نواسے کو بھی عام طور پر بیٹا کہا جاتا ہے۔ پس حضرت مسیح کو ابن دائود یا ابن ایراہیم کہا گیا ہے تو مریم کی وجہ سے کہا ہوگا غالباً آپ بھی اس محاورہ کو صحیح جانتے ہیں جب ہی تو یہ عذر کرتے ہیں کہ۔ ” یہودی شریعت میں عورت کی طرف سے نسب قائم نہیں ہوسکتا دوسرے یہ کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا دائود کی نسل سے ہونا ثابت نہیں“ ص ٢٥ گو یہ بھی اسی صفحہ پر تسلیم ہے کہ۔ ” حضرت مریم ( علیہ السلام) حضرت زکریا کی بیوی الیشع کی رشتہ دار تھیں اور الیشع ہارون کی بیٹی تھی مگر نہ یہ معلوم ہے مریم اور الیشع میں کیا رشتہ تھا اور نہ یہ معلوم کہ ہارون کس کی اولاد تھے“ ص ٢٥ حضرت ! ان باتوں سے بجز اس کے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہو کیا ہوسکتا ہے جب ہمیں انہیں اناجیل مروجہ میں صاف اور صریح الفاظ میں حضرت مسیح کا بے باپ ہونا اور عیسائیوں کا متفق علیہ عقیدہ اسی پر ہونا ثابت ہے تو پھر ایسے ویسے بعید از قیاس احتمالات کو کون سن سکے گا۔ ان کے رد کرنے کو صرف اسی قدر کافی ہے کہ یوسف دائود کے گھرانے سے تھا (دیکھو انجیل لوقا باب اول فقرہ ٢٧) جب یوسف دائود کے گھرانے سے تھا تو غالباً مریم بھی اسی خاندان سے ہوں گی جب تک کہ کسی قوی دلیل سے ثابت نہ ہو کہ مریم خاندان دائودی یا اسرائیلی سے نہیں تھیں اسی قدر کافی ہے۔ ہاں آپ کا اس فقرہ انجیلی پر کہ جیسا کہ گمان تھا وہ (مسیح) یوسف کا بیٹا تھا (لوقا باب ٣ درس ٣٣) نظر ڈالنا بھی حیرت بخش ہے جب کہ یہی لوقا باب الفاظ میں مسیح کی ولادت بے باپ لکھتا ہے تو پھر ایسے محاورات سے کیا نتیجہ۔ علاوہ اس کے ہوسکتا ہے کہ یہ بیان ان کا اس پر بنی ہو کہ مسیح بعد ولادت اس کے گھر میں رہے جیسا کہ ربیب کو بیٹا کہہ دیا کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ سید صاحب اس مسئلہ میں اہل معانی کا قاعدہ بھی بھول گئے کہ موحد اگر (انبت الربیع البقل) کہے تو اس میں نسبت مجازی ہے اولم یر الانسان انا خلقناہ من نطفۃ فلینظر الانسان مم خلقط خلق من ماء دافق۔ اسی مسئلہ (ولادت مسیح) پر سید صاحب کے ہم خیال ان آیات سے بھی استدلال کیا کرتے ہیں جن میں انسان کی پیدائش کی ابتداء نطفہ سے بیان ہوئی ہے مگر بعد غور دیکھیں تو یہ استدلال بھی ضعیف ہے اس لئے کہ ان آیات میں قضیہ کلیہ نہیں بلکہ مہملہ ہے جس میں کل افراد پر حکم ضروری نہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ان آیتوں میں سب انسانوں کی پیدائش کا ذکر نہیں بلکہ اکثر کا ہے۔ قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس پیدائش کے بیان سے متصل ہی انسان کی ناشکری‘ غرور‘ تکبر‘ گردن کشی کا بیان عموماً مذکور ہوتا ہے جو اکثر افراد انسان میں تو ہے کل میں نہیں بالخصوص حضرات انبیاء اور مسیح (علیہم السلام) کو تو ان سے کو سوں دوری ہے پس ان آیتوں سے تمام افراد انسان کی پیدائش کا نطفہ سے ثبوت دینا گویا کل انبیاء کی نسبت یا کم سے کم مسیح کی نسبت ان گناہوں کا گمان کرنا ہے جو ان آیتوں میں بیان ہیں۔ علاوہ اس کے اگر سب افراد پر بھی حکم ہو تو اس اجمالی بیان سے دوسری آیت مسیح کو نکال سکتی ہے جیسا کہ عام مخصوص البعض کا قاعدہ ہے مثلا ایک آیت میں فرمایا کہ “ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسہن اربعۃ اشھر وعشرا۔ جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس روز ٹھیر کر دوسرا خاوند کرسکتی ہیں۔“ (دوسری آیت میں فرمایا) واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن۔ ” حاملہ عورت بعد جننے کے نکاح کرسکتی ہے۔ “ خواہ وہ بعد مرنے خاوند کے ایک گھڑی بعد جنے خواہ نو مہینے بعد حالانکہ پہلی آیت کے مطابق اس کو چار مہینے دس روز کی عدت بیٹھ کر نکاح کی اجازت چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیونکہ دوسری آیت میں ” حاملہ کا خصوصیت سے ذکر آچکا ہے۔“ اس لئے پہلی آیت کے ذیل میں اس کو لانا گویا دوسری آیت سے غفلت ہے اس قسم کی کئی ایک مثالیں قرآن شریف میں بلکہ ہر ایک کتاب اور محاورہ میں ہوتی ہیں پس جیسا کہ ان دونوں آیتوں کے ماننے والے دونوں پر اس طرح عمل کرتے ہیں کہ پہلے عام فہم سے حاملہ کو نکال کر دوسری آیت کے ذیل میں لاتے ہیں تاکہ ایک ہی کے ذیل میں لانے سے دوسری سے انکار لازم نہ آئے اسی طرح ہم لوگوں کو جو سارے قرآن کو صحیح مانتے ہوں ان آیتوں سے (در صورت تسلیم عموم) مسیح کی پیدائش کو خاص کرنا ہوگا ورنہ ایک ماننے سے دوسری کا انکاز لازم آئے گا۔ سید صاحب اور ان کے حواریوں سے بڑھ کر ان حضرات سے تعجب ہے جو مسیح کی ولادت بے باپ کے قائل ہیں اور اس امر کو بھی مانتے ہیں کہ سب مسلمان سلفاً و خلفاً اسی طرح بے باپ ہی مانتے چلے آئے ہیں مگر (بقول ان کے) قرآن سے بے پاب ہونا ثابت نہیں حضرت ! ثابت تو روز روشن کی طرح ہے ” آفتاب آمد دلیل آفتاب مگر یوں کہیے کہ غور نہیں یا انصاف نہیں۔ سرسید نے جیسا مسیح کے بن باپ ہونے سے انکار کیا ویسے ہی ان کے کلام فی المھد (چھوٹی عمر میں بولنے) سے بھی منکر ہوئے ہیں کیوں نہ ہوں دونوں انکار ہی باپ کے توام ہیں یعنی سپر نیچرل (خلاف عادت) کے استحالہ کی فرع ہیں آپ سورۃ مریم کی آیت پر غور کرتے ہیں کہ۔ قرآن مجید سے ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے ایسی عمر میں جس میں حسب فطرت انسانی کوئی بچہ کلام نہیں کرتا کلام کیا تھا قرآن مجید کے یہ لفظ ہیں کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا اس میں لفظ کان کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے سے ہم کیونکر کلام کریں جو مہد میں تھا یعنی کم عمر لڑکا ہماری گفتگو کے لائق نہیں۔ یہ اسی طرح کا محاورہ ہے جیسے کہ ہمارے محاورہ میں ایک بڑا شخص ایک کم عمر لڑکے کی نسبت کہے کہ ابھی ہونٹ پر سے تو اس کے وہ بھی نہیں سوکھا کیا یہ ہم سے مباحثہ کے لائق ہے۔ تفسیر احمدی جلد ٢ ص ٣٧ سید صاحب کے اس امر کی تو ہم داد دیتے ہیں اور واقعی ہے بھی قابل داد کہ اپنے اصول نیچر کو بھولتے نہیں بلکہ جہاں تک ہوسکے دوسروں کو ان کی بات بہلانے کی کوشش کرتے ہیں مگر آخر وہی مثل صادق آجاتی ہے۔ ” بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی “۔ آپ سورۃ مریم میں ناحق تکلیف کرنے چلے گئے اسی سورۃ آل عمران میں جس کا حاشیہ لکھنے کو بیٹھے ہیں غور فرماتے تو کان یکون کی گردان سے مخلصی ہوتی دیکھئے تو کس وضاحت سے بیان ہے ویکلم الناس فی المھد وکھلا اس آیت کا ترجمہ اور کسی کا کیا ہوا تو آپ کا ہے کو مانیں گے آپ ہی کی تفسیر سے جو خودبدولت کے قلم سے نکلا ہے پیش کرتا ہوں (مسیح) ” کلام کرے گا لوگوں سے گہوارہ میں اور بڑھاپے میں“ اسی کے انتظام کو آپ نے خطوط واحدانی ڈال کر (یعنے بچپنے میں) لکھ دیا ہے دیکھو صفحہ ٢١ حضرت اسی وجہ سے تو نحویوں نے اس کان کو ربط بتلایا ہے کہ دیکھو شرح ملا جامی اور سرح الشرح۔ علاوہ اس کے اس آیت (من کان فی المھد صبیا) کو آپ کے دعویٰ سے کیا تعلق؟ آپ تو اس واقعہ کو اس وقت سے متعلق کرتے ہیں جس وقت حضرت مسیح بڑے ہو کر وعظ گوئی کے لائق ہوچکے تھے اس وقت یہودیوں نے مریم کو کہا تھا کہ ہم اس لڑکے سے کیونکر بولیں جو گہوارہ میں کھیلا کرتا تھا (جلد ٢ ص ٣٦ طبع جدید ص ٣١) مگر اللہ تعالیٰ کا کلام (تکلم الناس فی المھد) میں تو نہ کان ہے نہ یکون بلکہ صاف ترجمہ ہے کہ مسیح لوگوں کے ساتھ بولے گا گہوارے میں اور بڑھاپے میں ہمارا استدلال تو اس کلام سے ہے اس سے نہیں پس اس کے جواب میں اس کا پیش کرنا کیا مفید ہوسکتا ہے آپ اس امر کی بابت بھی بار بار سوال کرتے کہ (مسیح کو) بن باپ پیدا کرنے میں حکمت الہٰی کیا ہوسکتی ہے ص ٢٣ آپ کے اس سوال سے مجھے بادشاہ اکبر کے دربار کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ایک دفعہ مجمع علماء میں کسی صاحب فضل سے دوسرے کسی صاحب نے سوال کیا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کیا صیغہ ہے وہ بیچارہ خاموش رہ کر دوسرے روز دربار میں حاضر نہ ہوا اکبر نے اسے بلا کر عدم حاضری کی وجہ دریافت کی تو بولا بندہ نواز آج تو اس نے موسیٰ ( علیہ السلام) کا صیغہ پوچھا ہے کل کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کا پوچھے گا۔ سو اسی طرح آپ کے ان سوالات سے ہم ڈرتے ہیں کیا شاید آپ یہ بھی نہ دریافت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں آنکھیں سامنے کیوں لگائیں ایک آگے ہوتی ایک پیچھے تاکہ دونوں طرف کی چیزیں دیکھنے سے بہ نسبت حال کے دگنا فائدہ ہوتا۔ حضرت من ! اللہ عالم الغیب کے اسرار اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ ہاں جس قدر وہ بتلا دے اسی قدر ہم بھی کہہ سکتے ہیں سچ ہے اور بالکل سچ ہے۔ لَایُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ پس جب ہم اس غرض سے کہ امر کے متعلق اللہ عالم الغیب کی بتلائی ہوئی وجہ کیا ہے کلام الہٰی پر غور کرتے ہیں تو اس قدر پتہ چلتا ہے وَلِنَجْعَلَہٗ ٓاٰیَۃً للنَّاسِ (مریم) (تاکہ ہم اس (مسیح) کو نشانی بنا دیں گے۔ اس کے مقابلہ میں آپ کا عذر جب کہ ” اللہ تعالیٰ اقسام حیوانات کو بغیر توالد تناسل کے عادتاً پیدا کرتا رہتا ہے اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کو بے ماں و باپ کے پیدا کیا تھا تو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے صرف بے باپ پیدا کرنے میں اس سے زیادہ قدرت کاملہ کا اظہار نہ تھا“ جلد ٢ ص ٢٣ تار عنکبوت سے بھی ضعیف ہے آپ نے یہ خیال نہ فرمایا کہ کس امر کی نشانی حضرت من ! اس امر کی نشانی کہ بعد جاری کرنے اس سلسلہ کائنات کے بھی اللہ اس کے الٹ کرنے پر قادر ہے۔ پس اگر اقسام حیوانات بغیر توالد تناسل کے پیدا ہوتے ہیں تو ان کے لئے وہی سلسلہ پیدائش مقرر کر رکھا ہے۔ اور حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش بھی ابتدا سالہ میں تھی اس لئے وہ بھی خرق عادت نہیں ہوسکتی اس پر آپ کا یہ شبہ کہ ” اگر خیال کیا جائے کہ صرف ماں سے پیدا کرنا دوسرے طور پر اظہار قدرت کاملہ تھا تو بھی صحیح نہیں ہوتا اس لئے کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے ایک امر تین اور ایسا ظاہر ہونا چاہیے کہ جس میں کسی کو شبہ نہ رہے بن باپ کے مولود کا پیدا ہونا ایک ایسا امر مخفی ہے جس کی نسبت نہیں کہا جاسکتا کہ اظہار قدرت کاملہ کے لئے کیا گیا ہے جلد ٢ ص ٢٣ بالکل اس کے مشابہ ہے جیسا کہ اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ سید صاحب کو نہ تو کوئی شبہ ہے اور نہ ہی وہ اپنے مذہب کو قابل پذیرائی جانتے ہیں بلکہ انہوں نے خواہ مخواہ ایک تماشہ دیکھنے کو یہ نیا مذہب بنا رکھا ہے اس لئے شبہ ہو تو کسی ایسے امر میں جو کسی محاورہ زبان سے رفع ہوسکے نہ ایسے شبہات جو رفع ہوتے ہوئے قرآن کو بھی مرفوع کر جائیں پس جیسا کہ آپ کی دیانت داری اور قومی جوش اور ہائی ایجوکیشن کے نعرے سننے والے اس امر کو جانتے ہیں کہ آپ نے اسلام میں کھیل کے لئے تجدید مذہب نہیں کیا بلکہ دراصل آپ کی تحقیق ہی ہے ایسا ہی مریم صدیقہ کے حالات دیکھنے والے اور اس کی عفت کو جاننے والے اس قدر جانتے تھے کہ نہ تو مریم کا خاوند ہے اور نہ فاحشہ ہے پھر ایسی عفیفہ لڑکی کو جو بچہ پیدا ہوا ہو تو ضرور ہے کہ بے باپ کے ہوگا یہی وجہ ہے کہ بداندیشوں کو بجز اس کے نہ سوجھا کہ مریم ( علیہ السلام) کو تہمت سے ملوث کیا پھر بعد دیکھنے کمالات مسیحیہ کے شبہ جاتا رہا۔ اصل یہ ہے کہ سید صاحب چونکہ سپرنیچرل (خلاف عادت) محال سمجھتے ہیں اس لئے جہاں کہیں کوئی بات سپر نیچرل ہو اس کی تاویل میں ہاتھ پائوں مارنے شروع کردیتے ہیں حالانکہ خود ہی فرماتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے کہ تمام قوانین قدرت ہم کو معلوم نہیں ہیں اور جو معلوم ہیں وہ نہایت قلیل ہیں اور ان کا علم پورا نہیں بلکہ ناقص ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی عجیب واقعہ ہوا اور اس کے وقوع کا کافی ثبوت بھی موجود ہو اور اس کا وقوع معلومہ قانون قدرت کے مطابق بھی نہ ہوسکتا ہو اور یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ بغیر دھوکہ و فریب کے فی الواقع واقعہ ہوا ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بلاشبہ اس کے وقوع کے لئے کوئی قانون قدرت ہے مگر ہم کو اس کا علم نہیں“ جلد ٢ ص ٣٤۔ ثبوت کے لئے آیات قرآنی بشرط انصاف ملاخطہ ہوں۔ زمانہ حال کے منکرین سپر نیچرل کے لئے ایک واقعہ کا بیان شاید دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پیسہ اخبار لاہور ٢٨ نومبر ١٨٩٦ء میں بعنوان مرغی سے مرغا یہ خبر لکھی تھی کہ ” موضع آساپور ضلع دربھنگہ میں ایک شخص گوہر خاں کے یہاں عرصہ سے ایک مرغی تھی چند دفعہ انڈے دیئے اور بچے نکالے ایک دفعہ اس کے سر پر تاج مرغ جسے ہندی میں مور کہتے ہیں بڑھنا شروع ہوا اور معمول سے زیادہ تجاوز کر گیا تب اس نے بانگ مثل مرغوں کے دینا شروع کیا اب مرغیوں سے جفتی کرتا ہے مختصر یہ کہ مرغی سے مرغا بن گیا۔ (راقم خریدار ١٢٨٧٢) اس خبر کی تحقیق کو کہ کہیں بازاری گپ نہ ہو راقم خبر کا دفتر اخبار مذکور سے معلوم کر کے میں نے خط لکھا کہ معتبر آدمیوں کی تحریر جنہوں نے اس واقعہ کو بچشم خود دیکھا ہو مع دستخط خاص میرے پاس بھجوا دیں جس کے جواب میں صاحب مضمون کا خط پہنچا جو ذیل میں درج ہے۔ مولوی صاحب سرچشمہ فیض و کرم مدافضالہٗ وعلیکم السلام : آپ نے اس خبر کی جو میں نے ٢٨ نومبر ١٨٩٦ء کے پیسہ اخبار میں دی ہے تصدیق طلب فرمائی ہے میں اسجگہ کلکتہ میں ہوں اور اس امر کے جائے وقوع یعنی اپنے مکان شہر دربھنگہ سے تین سو میل کے بعد پر ہوں ایسی حالت میں مجھ سے فوراً انجام ہونا آپ کے حکم کا محال ہے لیکن اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ کچھ دنوں بعد ضرور اس خبر کی تصدیق آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے پاس بھجوائوں گا“ خادم محمد جلیل نمبر ٧ مکلوڈ اسٹریٹ کلکتہ ٦۔ اس کے بعد راقم خبر کی کوشش سے واقعہ دیکھنے والوں کا دستیطا خط پہنچا۔ مخدوم مکرم جناب مولانا صاحب مدظلہ العالی السلام علیکم وعلیٰ من لدیکم۔ الحمد للہ مزاج مبارک میں بمقام جالہ ضلع دربھنگہ مدرس مدرسہ تاج المدارس ہوں اتفاقاً بماہ ربیع الثانی ١٣١٤ھ مدرسہ سے رخصت لے کر بمقام آساپور ضلع دربھنگہ قبل پہنچنے کے اثنائے راہ میں سنا کہ بھائی گوہر خاں کی ایک مرغی مرغ ہوگئی ہے کچھ خیال نہ کیا افوا کو لغو سمجھا۔ جب بھائی موصوف کے مکان پر پہنچا قدرت صانع مطلق نمودار اپنی آنکھوں سے دیکھا ایک پرند ہے ہیئت بجنسہ مرغی کی مؤز اور طوق جس کی ہندی مور ہے ایک گرہ دیکھا اور بانگ دینا جو خاصہ مرغ کا ہے اس سے بار ہا سنا اور جفتی کرتے ہوئے دیکھا۔ جنابا ! یہ وہ مرغی ہے جس نے تین بار بیضے دیئے اور اس کے بچے ہوئے اگرچہ یقین کامل اس کے دیکھتے ہی ہوجاتا ہے کہ یہ مرغی ہے اور مرغ بھی ہے تاہم بیسیوں تاویل اور توجیہ احقر نے کیا لیکن اس کی دلیل ایسے قوی ہیں کہ لامحالہ کہنا پڑتا ہے کہ امر واقعی ہے اور توجیہات اور تاویلات سے مقصود تھا کہ کہیں دھوکا نہ ہوگیا ہو مثلاً اسی صورت کا مرغ رہا ہو خلاصہ یہ کہ سرمو اس میں کلام نہیں حسب الطلب مالک مرغی و چند اشخاص نمازی عادل کے دستخط بقلم ان کے پشت پر ثبت ہیں روانہ خدمت عالی کرتا ہوں والسلام۔ فقیر محمد اسحق مدرس مدرسہ تاج المدارس تاریخ ٢٢ رجب ١٣١٤ھ مرغی مرغا ہوگیا العبد محمد رمضان خاں بقلم گلزار خاں۔ العبد ظہور خاں۔ گوہر خاں (مالک مرغی) بقلم امید علی خاں پسر گوہر خاں۔ کئی ایک دستخط گجراتی یا کسی دوسری اجنبی زبان میں ہیں جو یہاں کسی سے پڑھے نہ گئے۔ فروری ١٩٣٢ئ میں ایک واقعہ ظہور پذیر ہوا جس نے پنجاب کے اخباروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی یہاں ہم اخبار حمائت اسلام لاہور کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ ایک محیر العقول واقعہ ایک سترہ سالہ طالب علم لڑکی بن گیا۔ لاہور ٢٦ فروری۔ میو ہسپتال میں ایک حیرت انگیز مریض زیر علاج ہے۔ ایک نوجوان طالب علم مرد کے اوصاف کھو کر عورت بن رہا ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ خالصہ کالج امرتسر کا ایک طالب علم جس کی عمر اس وقت ١٧ سال کے قریب ہے مردانہ نشانات کھو کر عورتوں کے نشانات پا رہا ہے کچھ عرصہ ہوا اس کے جسم میں درد شروع ہوا اور رفتہ رفتہ اس کے فوطے گھٹنے شروع ہوئے حتی کہ گولیاں معدوم ہوگئیں تھوڑے عرصے کے بعد عضو مخصوص گھٹنا شروع ہوا اور گھٹتے گھٹتے اس کا بھی نشان باقی نہ رہا پھر چھاتی میں درد شروع ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد اس لڑکے کی چھاتی اس طرح ابھر آئی جیسی عورتوں کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نقل و حرکت بھی عورتوں جیسی ہوتی گئی اب اسے اس غرض کے لئے ہسپتال لایا گیا اور کرنل ہارپرنیس انچارج میو ہسپتال کے سامنے پیش کیا گیا۔ انہوں نے بھی اس حیرت انگیز مریض کا معائنہ کیا والدین کو فکرو امنگیر ہوئی کہ کہیں ان کا نور نظر لڑکی نہ بن جائے کیونکہ جہاں اس کے تمام اعضا عورتوں جیسے ہو رہے تھے وہاں اس کی داڑھی کے بال بھی نہیں اگے کرنل ہارپرنیس کے مریض کا معائنہ کیا اور دوا وغیرہ دی لڑکا دوا لے کر چلا گیا کرنل صاحب کے خیال میں اس مرض کا نام (F۔ TIB- SPNIL۔ WSS) ہے جس سے مرد عورت بن جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدا پہلے یورپ سے ہوئی اور یہاں سے امریکہ پہنچی شمالی ہند میں پہلا موقع ہے اور میو ہسپتال میں اس سے پیشتر ایسا مریض کوئی نہیں آیا۔ (حمایت اسلام لاہور ٣ مارچ ١٩٣٢ئ ص ٥) قدرت کاملہ اس قسم کے واقعات کبھی کبھار دکھاتی رہتی ہے تاکہ لوگ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان لائیں۔ بالآخر ہم سید صاحب ہی کی تحریرات سے اپنی رائے کی تائید نقل کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہوسکتا ہے کہ پہلی ہی صدی میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے باپ میں اختلاف شروع ہوا اور یہ اختلاف ہونا ضروری تھا۔ پیدائش اور بناوٹ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ایسی تھی کہ وہ خود اس اختلاف کا ہونا چاہتے تھے جو شخص ان کی ظاہری صورت کو دیکھتا تھا وہ یقین جانتا تھا کہ وہ انسان و ابن مریم اور جب یہ خیال کرتا تھا کہ وہ کسی ظاہری سبب سے پیدا نہیں ہوئے تو وہ یقین کرتا تھا کہ وہ روح ہیں اور یہ ظاہری انسانی صورت صرف اس سبب سے حاصل ہوئی ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ انسان کی صورت میں اللہ کا پیغام مریم کے پاس لے کر آیا۔ اگر وہ کسی اور صورت میں لے کر آتا تو بلا شبہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) اسی صورت میں پیدا ہوتے۔ اور جب کوئی شخص ان کے اس مقتدرانہ معجزہ کو دیکھتا تھا کہ مردوں کو زندہ کرتے ہیں جو اللہ کا کام ہے تو ان کو اللہ اور اللہ کا حقیقی بیٹا کہتا تھا۔ پس جس شخص نے ان کی ظاہری صورت پر نظر کی اس نے ان کو نرا انسان جانا اور جس نے انسانی صورت بننے کی وجہ پر خیال کیا اس نے ان کو صرف روح جانا اور جس نے ان کے معجزہ پر نظر کی اس نے اللہ اور ابن اللہ جانا اور جس نے سب پر نظر کی اس نے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ مانا اور ان سب چزنوں کو اللہ نے واحد سے جانا اور پھر سب کو ایک مانا تصانیف احمد یہ جلد دوم ص ٤ اس درس میں جو یہ لکھا ہے کہ (اس سے پہلے کہ وہ ہمبستر ہو) اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بعد اس کے حضرت مریم یوسف سے ہمبستر ہوئی ہوں کیونکہ منگنی کے بعد حضرت مریم کا بیاہ ہونا پایا نہیں جاتا بلکہ تبقدیس اور اس بزرگی کے جو اللہ تعالیٰ نے اس اعجازی حمل سے حضرت مریم کو مرحمت فرمائی تھی یوسف نے حضرت مریم کا ادب کیا اور بیاہ سے باز رہا۔ چنانچہ بعض علماء مسیحی نے اس درس میں سے اس فقرہ کو کہ (قبل اس کے کہ ہمبستر ہوں) بعض نسخوں میں سے قصداً نکال ڈالا تھا کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ہمیشہ کی دوشیزگی پر کچھ شبہ نہ رہے (تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٣٨٠) ” جب یہ واقعہ یوسف کو معلوم ہوا تو نہایت متعجب ہوا کیونکہ حضرت مریم ( علیہ السلام) کا حمل ایسے عجوبہ طریقہ سے ہوا تھا کہ انسان کی سمجھ سے باہر تھا مگر یوسف نے اپنی نیکی اور بردباری اور سرتاپا خوبی سے اس کا مشہور کرنا نہ چاہا کیونکہ اگر یہ بات اس طرح پر ہوتی جس طرح کہ یوسف کے دل میں وہم ہوا تھا تو یہودی شریعت کے بموجب حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی سزا دی جاتی اس لئے یوسف نے چاہا کہ چپ چپاتے اس منگنی کو چھوڑ دے مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ( علیہ السلام) کی ستھرائی اور برگزیدگی ظاہر کرنے اور یوسف کے دل کا شک مٹانے کو اپنا فرشتہ خواب میں یوسف پاس بھیجا اور فرشتے نے کہا کہ تو مریم کو مت چھوڑ اور کچھ اندیشہ مت کر کیونکہ وہ روح قدس سے حاملہ ہے اس الہام سے یوسف کے دل کا شک مٹ گیا اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے تقدس کا اس کو یقین ہوا اور اس نے اس کو اپنے پاس رہنے دیا۔“ تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٣٩۔ اس درس میں وہ عبری لفظ جس کے معنی کنواری کے لئے ہیں (علمہ) ہے مگر یہودی اس پر تکرار کرتے ہیں اور وہ جوان عورت کے معنی بتاتے ہیں اور ترجمہ ای کوئلا میں بھی جو ٢٩ ء میں ہوا اور ترجمہ تھیوڈوشن میں بھی جو ١٧٥ئ میں ہوا اور ترجمہ ستیکس میں جو ٢٠٠ئ میں ہوا اس کا ترجمہ جوان عورت کیا ہے اور بائیبل میں بھی بعض لوگوں نے صرف ایک جگہ جوان عورت کے معنی کہے ہیں مگر یہ تکرار یہودیوں کی درست نہیں ہے۔ اصلی معنی اس لفظ کے (پوشیدہ) کے ہیں اور جو کہ یہودی اپنی لڑکیوں کو لوگوں سے چھپاتے تھے اس لئے یہ لفظ کنواری لڑکی کے معنی میں ظ بولا جاتا تھا چنانچہ کتب عہد عتیق میں کئی جگہ یہ لفظ آیا ہے اور اس کے معنی کنواری کے ہیں۔ لیکن اگر کہیں ایسا قرینہ ہو کہ اس کے سبب جوان عورت سمجھی جاوے تو اصلی استعمال سے پھیر کر بطور مجاز جوان عورت کے معنی لیتے ہیں مگر اس درس میں کوئی ایسا قرینہ نہیں بلکہ خلاف اس کے قرینہ ہے کیونکہ اشیاہ بنی نے معجزہ بتایا ہے۔ اور معجزہ جب ہی ہوتا ہے جب کنواری بیٹا جنے اس لئے اس جگہ بلاشبہ کنواری کے معنی ہیں نہ (بید) یعنے جوان عورت کے اور کچھ شبہ نہیں کہ ان پہلے تینوں مترجموں نے اس کے ترجمہ میں غلطی کی چنانچہ سبٹو ایجنٹ میں جس کو بہترّ علماء یہود نے مل کر ترجمہ کیا اس لفظ کا اس مقام پر کنواری ترجمہ کیا ہے (تصانیف احمدیہ جلد ٢ ص ٤٠) ” غرض کہ ایک ایسا زمانہ آگیا تھا کہ روحانی تقدس کسی میں نہیں رہا تھا اس لئے ضرور تھا کہ کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا جو روحانی تقدس اور روحانی روشنی لوگوں کو سکھاوے پھر وہ کوئی ہوسکتا تھا مگر وہ جو صرف روح سے پیدا ہوا ہو نہ کسی ظاہری سبب سے چنانچہ اس روحانی روشنی کے چمکانے کو حضرت مسیح (علیہ السلام) صرف روح اللہ سے پیدا ہوئے۔ تصانیف احمدیہ جلد دوم ص ٢۔ پس اب ہم سید صاحب کے بیانات کے بعد اہل مذاق کے انصاف پر بھروسہ کر کے حاشیہ کو ختم کرتے ہیں۔ واللّٰہ یقولالحق وھو یھدی السبیل۔ منہ “ اے مریم چونکہ تو اللہ تعالیٰ کی بندی ہے اپنے رب کی عبادت میں لگی رہ بالخصوص نماز تو نمازیوں کے ساتھ جماعت میں پڑھا کر بھلاجس عورت کو اللہ تعالیٰ یہ بزرگی دے اس کی نسبت فحش اور بے حیائی کا خیال کرنا جیسا کہ یہودی کرتے ہیں کیسا جھوٹ ہے بلکہ کفر ہے کہ ایسی اللہ تعالیٰ کی بندی کے بیٹے کو اللہ سمجھنا انہیں دونوں گروہوں کی ہدائیت کے لئے یہ غیب کی خبریں تیری طرف ہم بھیجتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ اپنے قلم یعنی قلموں کے لکھے ہوئے پر چے بطور قرعہ اندازی کے بایں غرض ڈالتے تھے کہ کون ان میں سے مریم کا مربی اور کفیل ہو اور نہ تو اس وقت ان کے پاس تھا جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے ” آمد مریم برسر مطلب اب وہ بات بھی سنو جس کے لیے یہ ساری تمہید تھی یعنی مسیح کی عبودیت کا ثبوت اور الوہیت کا ابطال۔ ” اصل میں شروع سورت سے ابطال الوہیت مسیح کی تمہید ہے جیسا ہماری تقریر سے واضح ہو رہا ہے۔ ١٢ منہ “ یاد کرو جب اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے مریم سے کہا اللہ تعالیٰ تجھے اپنے ایک حکم کی خوشخبری دیتا ہے کہ اس حکم سے تیرے رحم میں ایک بچہ پیدا ہوگا کہ اس کا نام مسیح بن مریم ہوگا دنیا اور آخرت میں بڑی عزت والا اور نیز اللہ کے مقرب بندوں سے ہوگا اور گہوارہ یعنی چھوٹی عمر میں اور بڑھاپے میں لوگوں سے ہدائیت کی باتیں کرے گا نہ جیسا یہودی کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) ناجائز مولود تھا یا نصاریٰ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ کا بٹار اور جزو ہے بلکہ وہ اللہ کانبی اور نیکو کاروں سے ہوگا مریم چونکہ اس وقت کنواری تھی بیٹے کی خبر سے گھبرا کر بولی میرے اللہ مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ بظاہر جو اسباب اولاد ہونے کے ہیں وہ تو مجھ میں مفقود ہیں بڑا بھاری سبب مرد کا اجتماع ہے سو مجھ کو تو ابھی تک کسی مرد نے ہاتھ سے نہیں چھوا پھر لڑکا ہوگا تو کیسے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے جواب میں کہا کہ بے شک بات یہی ہے جو تو نے کہی مگر اللہ کی قدرت سب سے نرالی ہے اللہ جو چاہتا ہے کردیتا ہے گو بظاہر اسباب ہر شے کے اس نے رکھے ہیں تاہم اسباب کا خالق بھی وہی ہے پس جب کوئی چیز کرنی چاہتا ہے تو اس کے لئے صرف یہی کہتا ہے کہ ہوجاپس وہ ہوجاتی ہے اسی تیرے بچہ کے اسباب بھی گو بظاہر مفقود ہیں لیکن وہ قادر قیوم تو ایک آن میں سب کچھ کرسکتا ہے وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ اور اس کو کتاب سماوی تہذیب اخلاق تورات اور انجیل سکھادے گا اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا بایں پیغام کہ میں تمہارے اللہ کی طرف سے رسالت کی یہ نشانی لایا ہوں کہ مٹی سے جانور کی شکل تمہارے سامنے بناکر اس میں پھونکتا ہوں۔ تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور اندھے مادر زاد اور کوڑھیوں کو اچھا کرتا ہوں اور مردوں کو تمہارے سامنے محض اللہ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں اور تم کو بتلا دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو بے شک اس میں میری نبوت پر تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم کسی کی ماننے والے ہو اور اگر تم یہ سمجھ کر مخالفت کرو کہ میں تمہاری کتاب کا منکر ہوں تو یہ بھی تمہاری غلطی ہے میں تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی ہے تصدیق کرتا ہوں البتہ میں اس لئے بھی آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو تم پر حرام ہیں اللہ کی طرف سے تم کو حلال بتائوں اور یہ میرا کسی چیز کو حلال حرام کہنا بےدلیل نہیں بلکہ میں اللہ کی طرف سے رسول ہوں اور تمہارے اور اپنے اللہ کی طرف سے اس دعویٰ پر نشان لایا ہوں پس تم اللہ اکیلے سے ڈرو اور شریعت میں مرای تابعداری کرو اس معجزہ نمائی سے مت خیال کرو کہ میں الوہیت میں کوئی حصہ رکھتا ہوں ہرگز نہیں بے شک اللہ ہی میرا اور تمہارا پالنہار ہے پس اسی کی عبادت کرو نہ کہ میری بھی یہی راہ سیدھی نجات تک پہنچانے والی ہے۔ مگر یہودیوں نے مسیح کی ایک نہ سنی بلکہ اس کو جھٹلاتے ہی رہے پس جب یہودی شرارت میں حد سے بڑھ گئے اور مسیح نے ان سے انکار ہی پایا تو بغرض تمیز یگانوں اور بیگانوں کے نیز واسطے اظہار عجز اور عبودیت اپنی کے کہا کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں حواری جو اس وقت مسیح کے مخلص دوست تھے بولے ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ کے حکموں کو مانتے ہیں پس تو گواہ رہ کہ ہم اللہ کے تابعدار اور اس کے دین کے خدمت گار ہیں یہ کہہ کر اللہ کی طرف جھک کر دعا کرنے لگے اے ہمارے اللہ ہم تیری اتاری ہوئی (کتاب) کو مانتے ہیں اور تیرے رسول عیسیٰ مسیح کے تابع ہیں پس تو ہم کو اپنی توحید کی گواہی دینے والوں میں لکھ رکھ اور یہودیوں نے مسیح کی ایذا کے لئے طرح طرح کے مخفی داؤ کئے اللہ نے ان سے داؤ کیا یعنی ان کی بے خبری میں حضرت مسیح کی حفاظت اور یہود کی ناکامی کے احکام جاری کئے یہی اللہ کا داؤ ہے اللہ سب داؤ کرنے والوں سے اچھا یعنی سب پر غالب ہے آخر یہودیوں کی شرارت کی یہاں تک نوبت پہنچی کہ اس کی ہلاکت کے درپے ہوئے مگر اللہ اس کا ہمیشہ مددگار رہا اور موذیوں کی ایذا سے حفاظت کرتا رہا۔