وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
اور ہم نے ان کے لئے پے درپے قرآن اتارا کہ شاید وہ نصیحت پکڑیں
(51۔61) جن لوگوں کو ہم نے اس قرآن سے پہلی کتاب کی سمجھ دی ہے وہ اس قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول اور قرآن ان کی کتابوں کا مصدق ہے اگر یہ نہ ہوتے تو جن پیش گوئیوں کا ان میں ذکر ہے وہ معلق اور بیکار رہتیں چونکہ ان لوگوں کی غرض رضائے الٰہی ہے اس لئے وہ اس قسم کے فضول اعتراض نہیں کرتے اور جب قرآن پڑھ کر ان کو سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے کچھ شک نہیں کہ یہ ہمارے پروردگار کے ہاں سے آیا ہے اور ہم اس سے پہلے ہی فرماں بردار تھے ہمیں تو رضائے مولا سے غرض ہے یہ مطلب نہیں کہ کس رنگ میں ہے کوئی بھی حکم ہو ہم اس کو قبول کریں گے اور دل سے مانیں گے ان لوگوں کے اخلاص اور مخالفوں کی تکالیف پر صبر کرنے کی وجہ سے ان کے اعمال کا بدلہ ان کو دگنا ملے گا کیونکہ یہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں کمال اخلاص سے کرتے ہیں اور بڑی بات ان میں یہ ہے کہ برائی کو نیکی کے ساتھ دور کرتے ہیں کوئی ان سے برائی کرے تو یہ اس کے عوض میں اس سے نیکی کرتے ہیں اور ہمارے دئیے میں سے ہماری رضا جوئی میں خرچ کرتے ہیں اور بڑی خوبی ان میں یہ ہے کہ کب کبھی کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں جو نہ دین میں نہ دنیا میں فائدہ مند ہو تو اس سے روگردا ہوجاتے ہیں اور ان بیہودہ گوؤں سے کہتے ہیں ہمارے کام ہم کو تمہارے کام تم کو لو ہمارا اسلام اور آہستہ سے دل میں کہتے ہیں کہ ہم ایسے جاہلوں سے ملنا نہیں چاہتے یہ ہے مختصر بیان ان لوگوں کی زندگی کا جو اللہ کے نیک بندے ہیں (دل میں کہنے کی قید اس لئے ہے کہ جاہل کو سامنے جاہل کہنے سے فساد ہوتا ہے جو ان کی روش کے خلاف ہے نیز دوسری آیت میں ارشاد ہے واذا خاطبہم الجاھلون قالوا سلاما یعنی نیک بندوں کا جاہلوں سے جب سامنا ہوتا ہے تو ان کو سلام کہہ کر چلا لیتے ہیں وہاں سلام کے سوا دوسرا کوئی لفظ بھی ان کا نقل نہیں کیا۔ (منہ) لیکن یہ خصلت اور عادت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ تو بھی اے نبی جس کو چاہے ہدایت نہیں کرسکتا مگر اللہ ہی جس کو چاہے ہدایت پر لائے یہ ہی نہیں کہ وہ جس کو ہدایت پر لاتا ہے بے وجہ لاتا ہے اور جن کو محروم کرتا ہے بے وجہ کرتا ہے نہیں بلکہ وہ ہدایت پانیوالوں کو بہت خوب جانتا ہے بھلا یہ لوگ بھی ہدایت یاب ہوسکتے ہیں جو صرف دنیاوی نقصانات کی وجہ سے سچی تعلیم کو قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر ہم اے نبی تیرے ساتھ ہو کر ہدایت کے پیرو ہوں تو مخالفوں کے ظلم اور دباؤ سے ہم اپنی زمین یعنی ملک سے نکالے جائیں یہ لوگ کفارعرب ہم کو کبھی نہ چھوڑیں سخت تکلیفیں پہنچائیں یہ ان کی ضعیف الاعتقادی ہے کیا ہم نے ان کو امن امان کے حرم مکہ میں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہمارے دینے سے ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آرہے ہیں ورنہ خاص مکہ معظمہ اور اور اس کے ارد گرد میں تو کچھ بھی نہیں لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ اس احسان کا شکریہ کریں بلکہ الٹے ناشکرے بنتے ہیں پس وہ یاد رکھیں کہ ان کی طرح پہلے بھی گمراہ اور آوارہ لوگ ہوئے ہیں اور ہم نے کئی ایک بستیاں ہلاک کردیں جنہوں نے بدکاریوں سے اپنی زندگی خراب کرلی تھی پس یہ تمہارے قریب ہی ان کی بستیاں ہیں جو ایسی اجڑی ہیں کہ ان لوگوں کے بعد بہت کم آباد ہوئی ہیں کیونکہ ہمارے غضب سے ان پر تباہی آئی تھی اور ہم ہی سب دنیا کے مالک ہیں جو کچھ ہم کرتے ہیں عدل و انصاف کرتے ہیں اور یاد رکھ کہ ہم کسی بستی کو تباہ نہیں کیا کرتے جب تک کہ اس کے بڑے مقام ضلع میں رسول نہ بھیجیں جو ان کو ہمارے احکام سنا دے اور کسی بستی کو تباہ نہیں کیا کرتے مگر جس حال میں وہ حد سے متجاوز ہو کر ظالم ہوتے ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں‘ چند روزہ گذارہ پر مست ہو کر اللہ ذوالجلال سے مستغنی ہوجاتے ہیں حالانکہ جو کچھ تم کو ملا ہے وہ دنیا کی زندگی کا گذارہ اور زینت ہے تاکہ تم اس دنیا کی چند روزہ زندگی گذار سکو اور نیک عمل کر کے اخروی مدارج کو پاؤ اور رضائے الٰہی حاصل کرو کیونکہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس دنیا کی زندگی اور فوائد سے کہیں بڑھ چڑھ کر بہت بہتر اور باقی رہنے والا ہے کیا تم جو اس دنیا کی چند روزہ زندگی پر غراں ہو سمجھتے نہیں ہو کہ جس قلیل عیش و عشرت کا انجام دائمی ذلت اور خواری ہو اس عیش میں پھنسنا دانائی نہیں کیا تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس شخص کو ہم نے نیک اعمال پر اچھا وعدہ دیا ہو پھر وہ اس وعدہ کے موافق بدلہ بھی پانے والا ہو کیا یہ اس شخص کی طرح ہے جس کو ہم نے دنیا کی زندگی میں چند روزہ گذارہ دیا پھر وہ اپنی بدعملی کی وجہ سے قیامت کے روز عذاب میں حاضر کیا جائے گا کیا تمہاری عقل فتوی دیتی ہے کہ یہ دونوں برابر ہیں؟ ہرگز نہیں