سورة الشعراء - آیت 192

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور بےشک یہ قرآن جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(192۔212) اس لئے اور سنو ! جس طرح یہ رسول اپنے اپنے وقت پر احکام الٰہی لائے اور امتیوں کو سناتے رہے بے شک اسی طرح یہ قران بھی رب العالمین کا اتارا ہوا ہے روح الامین یعنی جبرئیل فرشتہ نے اسکو تیرے دل پر اتارا ہے یعنی تجھ کو سنایا ہے کانوں میں ڈالا ہے تاکہ تو اے نبی ! ان ڈرانیوالوں یعنی نبیوں کی جماعت میں سے ہوجائے اسی لئے واضح عربی زبان میں ہے تاکہ تو پڑھے اور یہ لوگ سن کر سمجھیں اور اس میں شک نہیں کہ گو اس کی صورت کذائی حادث ہے مگر یعنی اس کا اصل مضمون پہلے لوگوں کی کتابوں میں ملتا ہے گو پچھلوں نے اس اصلی مضمون کو بہت کچھ بگاڑآ ہے تاہم اصلیت کا پتہ لگتا ہے کیا ان منکروں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء بھی اس مضمون کو جانتے ہیں ان سے پوچھو تو گو وہ اسلام اور قرآن کے مخالف ہیں مگر علیحدگی میں اتنی تصدیق وہ بھی کردیں گے کہ ؎ اللہ ایک ہے کوئی اس سا نہیں کسی کام میں ساجھی اس کا نہیں رہی یہ بات کہ وہ اس مضمون کو عبرانی یا کسی اور زبان میں بیان کریں گے اور قرآن عربی میں ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس مضمون کو کسی عجمی پر اتارتے یعنی عربی کی بجائے عجمی میں نازل کرتے اور وہ ان کو پڑھ کر سناتا تو وہ کبھی اس پر ایمان نہ لاتے ان کا عذر یہ ہوتا کہ واہ صاحب ! ہم تو عربی اور یہ عجیم کون اسے سمجھے اور کون اس کا ترجمہ کرے لیکن اب جو باوجود اس وضاحت کے ایمان نہیں لاتے تو اب ان کا کوئی عذر نہیں پڑے سر کھائیں اسی طرح بالا کراہ ان کی بادل ناخواستہ ہم نے اس قرآن کو مجرموں کے دلوں میں داخل کردیا ہے یعنی ان کے کانوں میں ڈال کر دل تک اس کا مضمون پہنچا دیا ہے وہ ہرگز اس کو نہ مانیں گے جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھیں گے پس یاد رکھیں کہ عذاب ان پر ایسا ناگہاں آجائے گا کہ نہیں جانتے ہوں گے پھر کہیں گے کیا ہمیں کچھ مہلت ہے کیا اس وقت مہلت مانگیں گے اور اس وقت ہمارا عذاب جلدی مانگتے ہیں یہ ان کی سراسر کج فہمی اور حماقت ہے بھلا یہ بتلائو اگر ہم ان کو سالہا سال تک بھی مہلت دیدیں پھر جو کچھ برے کاموں پر عذاب کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ان پر آجائے تو جن چیزوں سے ان کو دنیاوی فوائد اور منافع حاصل ہورہے ہیں وہ انہیں کیا کام آئیں گی ہرگز کچھ کام نہ آئے گا اور یونہی تباہ ہوجائیں گے ہم ان کو اس لئے سمجھاتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام دستور اور قانون ہے کہ ہم کسی بستی کو بغیر اس کے تباہ و برباد نہیں کرتے کہ ان کے پاس برے کاموں پر عذاب کا ڈر سنانے والے نصیحت کرنے کو نبی نہ آئے ہوں کیونکہ ہم ہر حال میں منصف اور رحیم ہیں اور ہم کسی طرح ظالم نہیں ہیں بلکہ جب بندوں کی طرف سے شرارت حد کو پہنچ جاتی ہے تو ان کی سرکوبی کے لئے مناسب وقت پر عذاب نازل ہوتا ہے ان مشرکین عرب کے عذاب کے دن بھی اب قریب آگئے ہیں کیونکہ ان کی شرارت اور فساد بھی حد سے بڑھ گیا ہے دیکھو تو اس سے بھی زیادہ فساد کیا ہوگا کہ قرآن شریف کی نسبت یہ کیسے کیسے غلط خیالات رکھتے ہیں کہ اس (محمد علیہ السلام) نے اپنے پاس سے بنا لیا ہے بعض تو اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ اس کو شیاطین نازل کرتے ہیں یعنی ان کے خیالات کا اثر ہے حالانکہ یہ قران حضرت محمد (علیہ السلام) نے نہ از خود بنایا ہے اور نہ شیاطین نے اس کو اتارا ہے نہ ان شیاطین کو لایق ہے اور نہ ان سے ہوسکتا ہے کہ اس کے ساتھ اترسکیں بلکہ ان کے اس سے تو پر جلتے ہیں اور مارے خوف کے کانپتے ہیں وہ تو اس قرآن کے سننے سے بھی الگ کئے جا چکے ہیں اور اس سے ان کی طبیعت کو کوئی مناسبت ہی نہیں کیونکہ قرآن کا اثر انکے شرارتی مادہ کو مضر ہے