كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ
نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا
(105۔122) ان کی نظیر سابق میں بھی گذر چکی ہے تمہیں معلوم ہے کہ نوح نبی کی قوم نے بھی ان کی طرح رسولوں کو جھٹلایا تھا جب ان کے بھائی یعنی انہی میں کے ایک جوان صالح نوح نے ان سے کہا کیا تم اللہ کی بے فرمانی کرنے سے ڈرتے نہیں ہو۔ بھائیو سنو ! بیشک میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے رسول امین ہوں جو کچھ اللہ کی طرف سے مجھ پر الہام ہوتا ہے ہی وہی بتلاتا ہوں۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری تابعداری کرو جو کچھ میں اللہ کا نام لے کر تم سے کہوں اس کو قبول کرو میں تم سے اس تعلیم و تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں مانگتا میری اجرت تو اللہ رب العالمین کے پاس ہے وہی مجھے اپنی مہربانی سے جو چاہے گا عنایت کرے گا۔ پس تم اللہ سے ڈرو اور میری پیروی کرو انہوں نے اور کوئی معقول جواب نہ دیا صرف اتنا کہا وہبھی ایسا کہ بالکل کچھ نہ کہتے تو اس کہنے سے اچھا تھا بولے کیا ہم تیری بات تسلیم کریں؟ حالانکہ یہ بات ہماری شان کے خلاف ہے کیونکہ ہم آسودہ اور شریف ہیں اور تیری تابع داری میں سب ذلیل لوگ آئے ہیں جو ہمارے کمین ہیں۔ پھر یہ کیونکر ہم گوارا کرسکتے ہیں کہ ہم باوجود اس شان و شرافت کے ایک ایسے مذہب کو اختیار کریں جس میں یہ ہمارے کمینے لوگ ہم سے برابر ہوں ایک ہی مجلس میں ایک ہی فرش پر برابر بیٹھیں بلکہ مسجد میں اگر پہلے آجائیں اور بڑھ کر بیٹھیں تو ہمارا حق نہ ہو کہ ہم ان کو اٹھا کر ان کی جگہ بیٹھ سکیں۔ بھئی ! ایسے مذہب کو تو دور سے سلام۔ حضرت نوح نے سوچا کہ یہ لوگ تو بڑے خر دماغ ہیں کون ان سے دماغ پچی کرے یہ خر دماغ تو کبھی سمجھنے کے نہیں اس لئے انہوں نے ان کو مختصر سا جواب دیا جو اپنے اصلی معنے میں راست بھی تھا اور ان کا جواب بھی تھا گو مختصر تھا مگر معقول۔ کہا مجھے ان کے دنیاوی کاموں کا علم نہیں کہ کیا کرتے ہیں یہ تمہارے کارندے ہیں یا تم ان کے۔ یہ تمہارے ماتحت ہیں یا تم ان کے ماتحت ہو۔ ان کے نیک و بد اعمال کا حساب میرے پروردگار پر ہے وہی سب کے حال سے واقف ہے وہی خوب جانتا ہے کہ کون بہتر ہے اور کون کہتر ہے۔ کون نیک ہے اور کون بد۔ کاش تم کو شعور ہو اور سمجھو کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ دنیاوی کاروبار کے اعتبار سے کوئی آقا ہو کوئی نوکر اس کو اللہ کے قرب میں کچھ بھی اثر نہیں وہاں تو اثر تقویٰ اور عدم تقویٰ کا ہے اگر تقویٰ ہے تو عزت ہے اگر تقویٰ نہیں تو ذلت۔ اور اگر یہ کہو کہ میں تمہارے کہنے سے ان غربا کو اپنی مجلس سے نکال دوں تو یہ ہرگز نہیں ہونے کا۔ میں ان ایمانداروں کو کبھی نہیں دھتکاسکتا میں تو صاف طور پر ڈرانے والا ہوں جس کا جی چاہے قبول کرے جو نہ چاہے نہ کرے۔ جب اس معقول کلام کا جواب ان سے نہ ہوسکا تو بقول چو حجت نماند جفا جوئے را بہ پیکار کردن کشد روئے را بولے اے نوح ! ہم تیری اس لمبی چوڑی منطقی تقریر کا جواب نہیں دے سکتے ہاں اتنا ایک الٹی میٹم (اعلان جنگ) سن رکھ کہ اگر تو اس بے ہودہ گوئی سے باز نہ آیا تو تو پتھروں سے سنگسار کیا جائے گا نوح نے جب قوم کی یہ سختی دیکھی کہ کسی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو اللہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرتے ہوئے کہا اے میرے پروردگار ! میری قوم نے مجھے جھٹلایا ہے اور یہ کسی طرح راہ راست پر نہیں آتے پس تو مجھ میں اور میری قوم میں صاف صاف فیصلہ فرما۔ اور مجھ کو اور میرے ساتھ والے ایمانداروں کو ان تکلیفات سے ہمیشہ کے لئے نجات بخش پس اس کے دعا کرنے میں دیر تھی کہ ہم (اللہ) نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو بھری کشتی میں طوفان سے بچا لیا اور ان کو بچا کر باقی لوگوں کو غرق کردیا کچھ شک نہیں کہ اس واقعہ میں ایک بڑی نشانی ہے اللہ کی عظمت اور جلالت کی کہ کس طرح اللہ اپنے بندوں کی حمایت کرتا ہے اور کس طرح ان کو دشمنوں سے بچایا جاتا ہے مگر تاہم ان میں بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے اور مقابلہ کرتے ہیں کچھ شک نہیں کہ تیرا پروردگار بڑا غالب بڑا مہربان ہے اپنی غلبہ کی صفت سے مخالفوں کی مخالفت ہٹاتا اور مہربانی کی صفت سے ان کو ڈھیل دیتا ہے