آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور مسلمانوں نے اس بات کو مان لیا ، جو کچھ اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے ، سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں (ان کا اقرار ہے) کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور قبول کیا اے رب ہمارے ہم کو تیری بخشش چاہیے اور تیری طرف جانا ہے (ف ٢)
(285۔286)۔ چنانچہ یہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھ والے مسلمان کیسے اپنے اللہ کی اتاری ہوئی باتوں کو مان گئے۔ گو ان کی سمجھ میں نہ آئی لیکن انہوں نے فہم پر تسلیم کو مقدم رکھا پس سب کے سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر یقین لائے اور بولے کہ ہم اللہ کے کسی رسول کے ماننے میں فرق نہیں کریں گے۔ کہ یہود نصاریٰ کی طرح بعض کو مانیں اور بعض سے انکاری ہوں۔ اور یہ بھی بولے کہ حکم ہم کو ہوا ہم نے دل لگا کرسنا اور قبول کرکے اس کی اطاعت کی اگر اس میں ہم سے غلطی ہوجائے تو اے ہمارے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ مر کر تیری طرف پھرنا ہے اللہ کی طرف سے بھی ایسے نیک بندوں کی دعا قبول ہوئی اس لئے اللہ کسی کو طاقت اس کی سے بڑھ کر حکم نہیں دیتا ” شان نزول :۔ پہلی آیت جس میں اِنْ تُبْدُوْا ہے اس کے ظاہری معنی تھے کہ اگر تم اپنے جی کی بات کو چھپائو گے تو بھی عذاب ہوگا اس سے صحابہ کو رنج اور بیقراری ہوئی اور عرض کیا کہ اگر ہمارے دلوں کے خیالات فاسدہ پر بھی ہمیں سزا ملی تو پھر ہمارا کیا حال ہوگا دل میں تو خیالات ہر طرح کے بلا اختیار آجاتے ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرح گھبرائو نہیں بلکہ جو حکم آئے اس کو تسلیم کرو اللہ علیم و حکیم ہے کوئی مناسب حکم اتارے گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم کسی کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے جو غلط خیالات تمہارے دل میں بلا اختیار پیدا ہوتے ہیں یا آئندہ کو ہوں گے ان پر تم کو پکڑ نہ ہوگی ١٢ (ترمذی بتفصیل منہ) “ بعد مناسب حکم دینے کے جو کچھ کوئی نیکی کرے وہ اسی کو ملے گی اور جو برائی کرے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا یہ سن کر بھی وہ مؤمن یہی کہتے رہے کہ ہمارے مولا ! نہ پکڑ ہم کو اگر ہم سے بھول چوک سے گناہ ہوجاوے اے ہمارے مولا ! نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا کہ رکھا تھا تو نے ہم سے پہلوں پر کہ ان کی توبہ قتل نفس سے ہوئی۔ اے ہمارے مولا ! ہم کو ایسے حکم نہ دیجئو جن کی ہم میں طاقت نہ ہو اے ہمارے مولا ! اور ہماری آرزو ہے کہ ہمارے قصورہم سے درگزر کر اور ہم کو اپنی مہربانی سے بخش اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا والی ہے پس تو کافروں کی قوم پر (جو تیری توحید اور تیرے رسول کے ماننے کی وجہ سے ہمیں ستائیں) ہم فتح یاب کر۔ ” اسؔ آیت کے فضائل احادیث میں بہت ہیں۔ ایک حدیث میں جو مسلم نے روایت کی ہے مذکور ہے کہ ایک فرشتے نے آسمان سے آکر حضرت اقدس کو مبارک باد دی کہ آپ کو دو چیزیں ایسی ملی ہیں کہ آپ سے پہلے کسی کو نہیں ملیں۔ وہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقر کی اخیر کی آیتیں ہیں “