سورة الفرقان - آیت 17

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جس دن وہ ان کو اور اللہ کے سوا انکے معبودوں کو جمع کرے گا ، پھر پوچھے گا کیا میرے ان بندوں کو تم نے بہکایا تھا ، یا وہ آپ ہی راہ سے بہک گئے تھے ، ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(17۔20) اور ایک بات سنو ! کہ جس روز اللہ ان کو درجن بندگان اللہ کو اللہ کے سوا پوجتے ہیں جمع کر کے کہے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہوئے تھے وہ کہیں کہ تو پاک ہے ہماری کیا مجال تھی کہ ہم تیرے بندوں سے اپنی عبادت کرا کر گمراہ کرتے جس حال میں کہ ہمیں خود لائق نہیں کہ تیرے سوا کسی کو اپنا کار ساز بنائیں لیکن ان کی گمراہی کا باعث یہ ہے کہ تو نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو ان کی گردن کشی اور تکبر پر مواخزہ نہ کیا بلکہ آسودہ کیا یہاں تک کہ ہدایت کی بات کو بھول گئے انہوں نے سمجھا کہ ہمارے یہ کام اللہ کو یا تو پسندیدہ ہیں یا کم ازکم موجب عتاب نہیں پس وہ اپنے افعال قبیحہ پر مصر رہے اور تباہ ہونے والی قوم بن گئے اس گفتگو کے بعد ان مشرکوں کو کہا جائے گا کہ لو انہوں نے تو تمہاری ساری باتوں میں تکذیب کردی اب تم اپنے سے عذاب کو ٹال نہیں سکو گے اور نہ اپنی مدد کرسکو گے اور سنو ! جو تم میں سے ظالم ہوگا ہم اس کو آخرت میں بڑا عذاب چکھائیں گے بھلا یہ ظلم نہیں تو کیا ہے جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر یہ رسول سچا ہوتا تو کھانا کیوں کھاتا پانی کیوں پیتا بازاروں میں کیوں چلتا حالانکہ ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں سب کھانا کھاتے تھے اور حسب ضرورت بازاروں میں چلنے پھرتے تھے ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے قدرتی طور پر تم میں سے ایک کو دوسرے کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے یعنی قدرتی طور پر ایک دوسرے کے لیے باعث تکلیف ہوتا ہے مگر اللہ کے بندے صبر ہی کیا کرتے ہیں کیا تم بھی ان نیک لوگوں کی طرح جو تم لوگوں سے پہلے گزر چکے ہیں صبر کرو گے؟ یا نہیں تم سے امید ہے کہ تم اپنے پروردگار پر پورا بھروسہ کرو گے کیونکہ اس کا تم سے وعدہ ہے اور تمہارا پروردگار سب کچھ دیکھتا ہے جو جس لائق ہوتا ہے اسے دیتا ہے مگر جو لوگ نادان ہیں وہ الٰہی راز کو نہیں پا سکتے اور معترض ہوتے ہیں