سورة النور - آیت 3

الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

زنا کار مرد صرف زانیہ یا مشرک عورت سے نکاح کرتا ہے اور زناکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے ۔ اور یہ بات مؤمنین پر حرام ہے ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(2۔4) زنا کاری بری عادت ہے کہ نیک خصلت سادہ مزاج آدمی کو زنا کار کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہئے خصوصا پاکدامن نیک لڑکی کو اس کے حبالہ عقد میں نہیں دینا چاہئے اس لئے یہ حکم دیا جاتا ہے کہ زانی جب تک زنا سے تائب نہیں ہوتا صرف زانیہ یا بےدین مشرکہ عورت ہی سے نکاح کرے تاکہ کوئی بھلی عورت اس کی صحبت میں خراب نہ ہو اسی طرح عورت زانیہ بحالت اجرا زنا اگر نکاح کرنا چاہے تو اس سے کوئی بھلا مرد نکاح نہ کرے بلکہ زانی یا بدکار مشرک ہی اس سے نکاح کرے تاکہ ؎ کند ہم جنس باہم جنس پرواز صادق آئے کوئی شریف مرد زانیہ عورت کے اثر صحبت سے اور کوئی عفیفہ عورت بدکار زانی کے ماتحت خراب نہ ہو اس لئے کامل مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے تاکہ وہ فاحشات سے باوجود فحش جاری رکھنے کے زن و شوئی کا تعلق کریں ہاں اگر کوئی فریق ان میں سے توبہ کرے اور دل سے احکام اللہ کریم کے ماتحت رہنے کا وعدہ کرے تو بے شک معاف ہوگا اور اس حکم کے ذیل میں نہ آئے گا کیونکہ باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ گر کافر دگبرد بت پرستی باز آ ایں در گئہ مادرگئہ نومیدی نیست صدبار اگر توبہ شکستی باز آ چونکہ زنا کاری اللہ کے ہاں سخت ناپسند اور معیوب ہے اس لئے حکم دیتا ہے کہ جو کوئی پاک دامن عورتوں کو یا پاک صاف مردوں کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائیں یعنی پولیس میں رپورٹ کریں کہ فلاں شخص نے زنا کیا ہے یا عام طور پر کسی مجلس میں مشہور کریں کہ فلاں شخص نے ایسا کام کیا ہے جس سے اس کی ہتک متصور ہو پھر اس دعویٰ پر چار گواہ نہ لائیں تو ان مفسدوں کو اسی اسی درے (بید) رسید کرو اور آئندہ کو کبھی بھی کسی معاملہ میں ان کی شہادت قبول نہ کرنا کیونکہ یہ لوگ بدکار ہیں جو پاک دامنوں کو ایسے فعل شنیع کی تہمت لگاتے ہیں ان کا بھی کوئی اعتبار ہے ہرگز اس لائق نہیں کہ کسی معاملہ میں بھی ان کا اعتبار کیا جائے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے اس لئے جو لوگ اس کے حضور توبہ کرتے ہیں خواہ وہ کیسے ہی بدکار ہوں فورا ان پر رحمت نازل ہوتی ہے اس لئے یہاں بھی وہی قانون ہے کہ جو لوگ اس کے بعد کہ انہوں نے ناحق پا کدامنوں پر اتہام لگائے توبہ کریں اور نیکوکاری اختیار کریں تو ایسے لوگوں پر سے یہ الزام اٹھایا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے پس ان کی شہادت اب قبول ہوگی کیونکہ قرآن و ہدیث اس پر متفق ہیں کہ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا نہ کرنیوالا