سورة المؤمنون - آیت 71

وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اگر حق ان کی خواہشوں کے مطیع ہوجائے ، تو آسمان اور زمین اور جو ان میں ہے ، بگڑ جائے لیکن ہم ان کی نصیحت ان کے پاس لائے ہیں ‘ سو وہ اپنی نصیحت (ف ١) ۔ سے منہ موڑتے ہیں ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(71۔78) یہی وجہ ہے کہ رسول کی پیروی نہیں کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ سچائی خود ان کی خواہشات کے مطابق ہو حالانکہ اگر سچ ان کی خواہش کے مطابق ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمام دنیا کے برے کام جائز کئے جائیں کیونکہ یہ لوگ تو سب کچھ کر گذرتے ہیں شرک ہے تو ان میں ہے کفر ہے تو ان میں ہے شراب خواری قمار بازی زنا کاری غرض دنیا کی تمام خرابیوں کا مجمع بلکہ منبع یہ لوگ ہیں اور ان کی دلی خواہش یہی ہے کہ نبی کی تعلیم سے یہ کام بند نہ ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والے …آدمی اور فرشتے سب کے سب تباہ وبربادہوجائیں کیونکہ قانون الٰہی ہے کہ سب کے سب لوگ بےدین اور بدمعاش ہوجائیں گے تو دنیا کا قیام نہ رہے گا جب یہ حال ہے تو سچ اور سچی تعلیم بھلا انکی خواہشات کے مطابق کیونکر ہوجائے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کی سچی نصیحت لائے ہیں تاکہ ہدایت پاویں مگر یہ لوگ اپنی شرارتوں میں ایسے منہمک ہیں کہ کان بھی نہیں لگاتے پس یہ لوگ اپنی ہدایت اور نصیحت سے روگردان ہیں کیا تو ان سے اس وعظ و نصیحت کرنے پر کچھ اجرت مانگتا ہے نہیں کیونکہ تیرے پروردگار کا اجر ان کی اجرت سے کہیں اچھا ہے اور وہ سب سے اچھا رزق دینے والا ہے پھر بھلا اسے چھوڑ کر ان سے توکیوں مانگنے لگا اور ان کی کیوں پرواہ کرنے لگا تو تو ان کو سیدھی راہ کی طرف بلاتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ سیدھی راہ سے ٹیڑھے جاتے ہیں ہمیشہ سے ان کی عادت کجروی کی ہورہی مگر جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر رحم کی درخواست کرتے ہیں اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو کچھ ان پر تکلیف آرہی ہے دور کردیں تو یہ ہرگز نہ ہوگا کہ اپنی شرارتوں سے باز آویں بلکہ اپنی سر کشی اور گمراہی میں بھٹکتے ہوئے دھستے جائیں اس لئے کہ اس سے پہلے ہم نے ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا تھا قحط سالی اور وبا کا تسلط ان پر ہوا تاہم یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کی پھر جب ہم حسب قاعدہ ان پر عذاب کا دروازہ کھول دیں گے یعنی ایک تکلیف کے بعد دوسری تکلیف ان پر آئے گی تو بجائے اس کے اللہ کی طرف جھکیں گے اور اپنے گناہوں پر معافی مانگ کر رحمت کے امید وار بنیں فورا اس سے ناامید ہوجائیں گے اللہ ذوالجلال کی رحمت سے ناامید ہونا ہر طرح کی حرمان اور بد نصیبی ہے کیونکہ وہ اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے پھر اس کی رحمت سے ناامید ہونا کون دانا جائز کہے گا مگر تم بہت ہی کم شکریہ کرتے ہو