وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
اور کیا تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات پہنچی ہے ؟ (ف ٣) ۔
(9۔40) کیا تجھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر نہیں پہنچی ہے کہ کس طرح وہ نبی ہوا اور کس طرح اس نے تبلیغ احکام کی اور اس وقت کا حال بھی کچھ تم نے سنا جب اس نے مدین سے واپسی کے وقت آتے ہوئے پہاڑ پر آگ سی دیکھی تو اپنے اہل و عیال سے کہا اس جگہ ٹھیرو کہ میں نے آگ دیکھی ہے اور تم کو موسم کی سردی نے بہت ستایا ہے شاید میں اس میں سے ایک جلتی چواتی لائوں یا اس آگ کے پاس سے کوئی راستہ پائوں اللہ کی شان اسے کیا معلوم تھا کہ ؎ آگ لینے طور پر موسیٰ گئے نور حق دیکھا پیغمبر ہوگئے۔ پس جب وہ اس آگ کے پاس آیا تو اسے ایک آواز آئی اے موسیٰ تو کیا دیکھ رہا ہے اور تو کیا تلاش کرتا ہے کس خیال میں ہے دیکھ میں (اللہ) تیرا پروردگار ہوں یہ آواز کیسی تھی؟ وہی جانتا ہے جس نے سنی ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ آواز تھی خواہ سر کے کانوں سے سنی یا دل کے کانوں سے سنی بہر حال سنی آہ ! ؎ برگ و رختان سبز در نظر ہوشیار ہر درتے دفتر لیت معرفت پس اے موسیٰ تو اپنی دونوں جوتیاں اتار ددے کیونکہ تو اس وقت ایک پاک جنگل طویٰ میں ہے جو تیرے حق میں اس وقت دربار شاہی کا حکم رکھتا ہے سن میں نے تجھ کو مخلوق کی ہدایت کے لئے برگزیدہ بنایا ہے پس جو کچھ تجھے اس وقت اور اس کے بعد الہام اور وحی کیا جائے اسے سنتے جائیو پہلا حکم قطعی یہ ہے کہ میں (اللہ) ہی سب کا سچا معبود برحق ہوں میرے سوا کوئی بھی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کیا کرنا اور عبادت کا طریق یہ ہے کہ عموما ہر وقت میرا ذکر کیا کرنا اور خاص خاص وقتوں میں میرا ذکر کرنے کو نماز قائم کرنا غرض ہر وقت میری طرف دھیان رکھا کرنا کیونکہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے جسے عنقریب میں ظاہر کروں گا تاکہ ہر شخص کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جاوے پس بے ایمان لوگ جو اس گھڑی کو نہیں مانتے اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تجھے بھی اس قیامت کے ماننے سے نہ روکیں ورنہ تو بھی گمراہ ہو کر ہلاک ہوجائے گا خیر یہ بات تو طے ہوئی اے موسیٰ اب تو یہ بتلا کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ گو ہم (اللہ) جانتے ہیں تاہم تیرے منہ سے کہلوانا مقصود ہے حضرت موسیٰ نے کہا یہ میرا اعصا (لکڑی) ہے جس پر میں تکان کے وقت تکیہ کرتا تھا اور اپنی بھیڑ بکریوں کیلئے درختوں کے پتے جھاڑ لیا کرتا تھا اس کے علاوہ میرے لئے اس میں اور بھی کئی ایک فوائد ہیں اتنی لمبی تقریر کرنے سے حضرت موسیٰ کی تو غرض یہ تھی کہ میں اپنی حاجت کا اظہار کروں مبادا کہیں اسے پھینک دینے کا حکم نہ ہو اخفا کے دونوں معنی (چھپانے اور ظاہر کرنے کے) آتے ہیں پچھلے معنے یہاں پر مناسب ہیں۔ (منہ) آخر وہی ہوا اللہ نے کہا اے موسیٰ اسے پھینک دے تاکہ تجھے ایک قدرت کا کرشمہ دکھا دیں پس موسیٰ نے سنتے ہی اس کو پھینک دیا تو ناگاہ وہ اسی وقت بھاگتا ہوا سانپ نظر آتا تھا موسیٰ (علیہ السلام) یہ کیفیت دیکھ کر ڈر گیا اللہ نے فرمایا اے موسیٰ اسے پکڑ لے اور خوف مت کر یہ مت سمجھ کہ یہ تجھے کوئی تکلیف پہونچائے گا ہم اسکی پہلی سی شکل اور کیفیت واپس لے آویں گے یعنی جب تیرے ہاتھ میں آویگا تو لکڑی کی لکڑی رہ جائے گا اور دیکھ اپنا ہاتھ سکیڑ کر اپنی بغل کے اندر رکھ تو وہ بغیر بیماری کے چٹہ سفید ہو کر نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے جو فرعون کے دربار میں تو دکھا سکے گا (بائبل کی دوسری کتاب ” خروج باب ٤ آیت ٧ میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ کا ہاتھ ” برف کی مانند سفید مبروص تھا“ مبروص اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں خون کی خرابی سے چمڑہ سفید ہوجاتا ہے قرآن میں من غیر سوٓء کا لفظ بڑھا کر بائبل کے اس لفظ کی تردید یا تصحیح کردی گئی ہے۔ (منہ) اس جگہ ہم نے تجھ کو انکا معائنہ اس لئے کرا یا ہے کہ تجھے اپنی قدرت کے بڑے بڑے نشان دکھا دیں پس تو بسم اللہ کہہ کر فرعون بے سامان مدعی اللہ کی طرف جا بے شک وہ سر کش ہو رہا ہے بندگی سے وحدانیت کا مدعی بن بیٹھا ہے کیسی نالائق حرکت ہے موسیٰ نے عرض کیا الٰہی ! مجھے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے تو اپنی عنایت سے میرا سینہ کھول دے یعنی مجھ کو فراخ حوصلہ بنا ایسا کہ ہر ایک کہ ومہ اعلیٰ ادنیٰ کی بد زبانی سنوں مگر کسی طرح کا طیش یا غیض و غضب مجھے نہ آئے اور میرا کام آسان کر دے تیری ہی مدد سے بیڑا پارہے اور میری زبان کی گرہ کھول دے یعنی میری لکنت اچھی کر دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں کیونکہ حالت موجودہ میں میری تقریر کچھ الجھی سی ہوگی اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو میرا وزیر بنا دے ان کے ساتھ میری ڈہارس بندھا اور میرے کام تبلیغ میں اسے شریک کر دے تاکہ ہم تیرے نام کی بہت بہت تسبیحیں پڑھیں اور تیرا ذکر بہت کریں عرض یہ کہ خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے پیارے دو تیرے عشق کے متوالے تیرے نام کے شیدائی تیری محبت کے دیوانے ساتھ مل کر گذاریں گے ورنہ تو ہمارے حال کو خوب دیکھ رہا ہے تو ہی سب کا موں میں ہم کو کافی ہے اللہ نے فرمایا بہت خوب اے موسیٰ تیرا سوال اور مطلوب تجھے دیا گیا اور یہ کوئی پہلا احسان تجھ پر نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے ایک اور دفعہ بھی ہم (اللہ) نے تجھ پر احسان کیا تھا جب ہم نے تیری ماں کو وحی کی تھی یعنی بذریعہ القاء الہام سوجھایا تھا کہ اس کو فرعونی ظلم اور قتل سے بچانے کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے دریا کا پانی اس کو کہیں لیجا کر کنارہ پر ڈال دے گا (بائبل کی دوسری کتاب ” خموج کے باب ٢ آیت ٥ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو دریا میں سے پکڑنے والی فرعون کی بیٹی تھی۔ قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پکڑنے والے حضرت موسیٰ اور اللہ کے دین کے دشمن تھے پس جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کو فرعون کی بیوی نے پکڑا تھا یہ ٹھیک نہیں کیونکہ فرعون کی بیوی حضرت موسیٰ پر ایمان لائی تھیں جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے پس فرعون کی بیوی کو پکڑنے والا کہنا غلط ہے بلکہ بموجب تصریح بائبل پکڑنے والی فرعون کی بیٹی تھی۔ (منہ) وہاں پر یہ صورت پیش آئے گی کہ میرا اور اس کا دشمن اس کو پکڑے گا جس کا نتیجہ اسی کے حق میں برا ہوگا اور ایک عجیب قدرت کا نظارہ سن کہ جب فرعونیوں نے تجھ کو اٹھایا اور شاہی مکان میں لے گئے تو میں نے اپنی طرف سے سب حاضرین کے دل میں تیری محبت ڈال دی تاکہ تجھ پر سب لوگ شفقت کریں اور تو میرے سامنے میرے جوار رحمت میں پالا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا تجھے معلوم ہے جب تیری بہن تیرے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی شاہی مکان میں پہونچی تو کیا دیکھتی کہ تو رو رہا ہے اور کسی دایہ کا پستان اپنے منہ میں نہیں لیتا کیونکہ ہم (اللہ) نے ہر ایک دایہ کا دودھ اس پر حرام کردیا تھا پس یہ ماجریٰ دیکھ کر اس ہوشیار لڑکی نے شاہی محل کے متعلقین سے کہا میں تم کو ایک ایسی دایہ بتلائوں جو اس کی نگہبانی کرے؟ وہ اور کیا چاہتے تھے یہ سن کر باغ باغ ہوئے اور خواہش ظاہر کی کہ لائو سب کی یہی خواہش تھی کسی طرح یہ لڑکا بچ رہے دراصل یہ سب میری قدرت کے کرشمے تھے اسی لئے تو کسی اہل دل نے کہا ہے ؎ کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں مصلحت را تہمتے برا ہوئے چین بستہ اند پس ہم نے اس ادنی کرشمے سے تجھے تیری ماں کے پاس پہونچا دیا تاکہ اس کی آنکھیں تیرے دیکھنے سے ٹھنڈی ہوں اور غمگین نہ ہو اور بھی تجھے کچھ خبر ہے کہ ہم نے تجھ پر کیا کیا احسان کئے جب تو نے ایک شخص قبطی کو مار ڈالا تھا جس پر تمام دربار فرعون تجھ سے انتقام لینے کی فکر میں ہوا تو ہم نے تجھے اس غم سے نجات دی کہ مدین کی راہ سمجھائی اور اتنے میں تجھ کو کئی طرح کے تجربات کرائے اور جانچا اور پاس کرایا پھر تو مدین والوں میں کئی سال رہا پھر اے موسیٰ تو ایک حد تک پہونچا جہاں سے تیری نبوت کی ابتدا شروع ہوتی ہے پس اس حد پر تو اب آیا ہے چنانچہ خلعت نبوت تجھ کو دیا گیا