وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ قَالَ أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا ، بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تونے مٹی سے بنایا ؟ (ف ٢) ۔
(61۔77) سنو ! تمہیں حاسد اور محسود کا ایک قصہ سناتے ہیں۔ جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو تعظیمی سجدہ یعنی سلام کرو بس ان سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس شیطان نے تکبر سے انکار کیا جو کچھ اس نے کیا محض حسد سے کیا کیا آدم کا بھی کچھ بگاڑا؟ ہرگز نہیں کمبخت نے بہانہ کیا کیا۔ بولا کیا میں ایسے کو سجدہ تعظیم کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے؟ حالانکہ میری پیدائش آگ سے ہے اور اگر بوجہ روشن ہونے کے مٹی سے ہر طرح اچھی اور افضل ہے یہ بھی اس نے کہا دیکھئے یہی آدم جس کو آپ نے مجھ پر فضیلت اور برتری دی ہے اللہ اگر مجھے قیامت تک زندگی دو تو میں باستشناء چند اس کی تمام اولاد کو برباد کردوں یعنی گمراہ کر دوں کیونکہ میں ان کی نبض سے واقف ہوں ان میں قوائے شہوانیہ اور اغراض نفسانیہ ہونے کی وجہ سے ایک سے ایک الگ ہونگے ہر ایک کی خواہش جدا ہوگی ایک سے ایک الگ ہوں گے ہر ایک کی خواہش جدا ہوگی ایک سے ایک کا میل نہ ہوگا پس ایسے بے پڑ ہر وں کو قابو کرنا کیا مشکل ہے اللہ نے فرمایا بھلا جا تو اپنا تمام زور لگا لے پس میں انہیں اطلاع کردوں گا کہ جو ان میں سے تیرا تابع ہو گہا تم سب کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو تمہاری کافی وافی سزا ہوگی جو تیرا زور ہے لگا لے اور ان میں سے جس پر تیرا زور چلے چلا لے اپنی آواز سے بہکالے اور اپنے سوار اور پیادے ان پر دوڑا لے اور ان کے مالوں اور اولاد میں بھی شریک ہولے یعنی مال و جان کی بھلائی برائی میں دوسروں کی طرف نسبت کرالے اور یہ کہلوالے کہ یہ فائدہ ہم کو فلاں بزرگ نے دیا ہے اور یہ لڑکا فلاں شخص نے بخشا ہے اور ایسے برے کاموں پر ان کو بڑے بڑے فراخی رزق اور صحت جسمانی کے وعدے سنائیو ہم بھی نبیوں کی معرفت ان کو اطلاع کردیں گے کہ شیطان جو لوگوں کو وعدے دیتا ہے سراسر دھوکہ ہے یعنی یہ جو کہتا ہے کہ فلاں بت قبر یا تعزیہ وغیرہ پر نذر چڑہائو گے تو تمہارے اڑے کام سنور جائیں گے حقیقت میں سب غلط ہے اڑے کاموں کے سنوارنے میں ان لوگوں کو کوئی دخل نہیں یہ بھی سن رکھ کہ گو عام طور پر لوگ اپنی جہالت اور کو تہ اندیشی سے تیرے دام میں پھنس جائیں گے مگر میرے نیک بندوں پر جو اپنے دلوں پر میری جبروت اور عظمت کا سکہ جمائے ہونگے تیرا زور ہرگز نہ چل سکے گا لوگو ! سنو ! اس مردود کی باتوں میں ہرگز نہ آنا اس کے دائوسے بچنے کی تدبیر یہ ایک ہی کافی ہے کہ تم دل میں یہ خیال بڑی پختگی سے جما رکھو کہ تمہارا پروردگار بندوں کی حاجات کو کارساز کافی ہے سنو ! عبادت کے لائق تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے فائدے کے لئے دریا اور سمندر میں بیڑے اور جہازات چلاتا ہے تاکہ تم بذریعہ تجارت اس کا فضل تلاش کرو یعنی بذریعہ بحری سفر کے تجارت میں منافع حاصل کرور زندگی آسودہ حالت میں گذاردو۔ دیکھو تو اس کی قدرت کہ اس نے دنیا کی پیداوار ہی ایسی بنائی ہے کہ جو اس ملک میں ہے اس ملک میں نہیں جو اس میں ہے اس میں نہیں تاکہ ادھر والے ادھر لے جاکر کمائیں اور ادھر والے ادھر لا کر فوائد حاصل کریں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ یعنی تمہارا پروردگار تمہارے حال پر بڑا ہی مہربان ہے باوجود یکہ وہ تمہاری شرارتوں سے واقف ہے تاہم تم کو رزق‘ عافیت‘ صحت اور تندرستی دیتا ہے اور جب تم کو دریا یا سمندر میں کوئی تکلیف پہونچتی ہے تو اللہ کے سوا جن مصنوعی معبودوں کو تم پکارتے ہو سب کو بھول جاتے ہو پھر جب وہ تم کو خشکی پر لے آتا ہے تو تم منہ پھیر کر رو گردان ہوجاتے ہو اور ناشکری کرنے لگ جاتے ہو۔ اگر سچ پوچھو تو انسان بڑا ہی نا شکرا ہے گو اسی نوع انسان میں صلحا بھی ہیں نیک بھی ہیں نبی بھی ہیں۔ ولی بھی ہیں مگر بعض بلکہ اکثر ان میں شریر بھی ہیں۔ تم مکہ کے رہنے والے آج کل عموما پچھلی قسم سے ہو کیا تم خشکی پر پہنچ کر اس بات سے بے خوف ہوجاتے ہو کہ تم کو اس خشکی کے کسی کنارہ پر زمین میں دھسا دے یا مچل آندھی کے تیز ہوا تم پر چلا دے پھر تم اپنے لئے کوئی مددگار نہ پائو گے یا کیا تم اس بات سے بھی خاطر جمع اور بے خوف ہوتے ہو کہ ایک دفعہ تمکو پھر اسی دریا میں لیجاوے یعنی مثل سابق کسی ضرورت کو پھر کبھی تم اسی دریا میں جائو تو تم پر ایک تیز ہوا جھکڑکی سی بھیج کر تمہاری نا شکری اور کفر ان نعمت کے بدلے میں تمکو غرق کر دے پھر تم اپنے لئے ہم پر کوئی پیچھا کرنے والا نہ پائو گے مگر جس قدر نرمی اور حلم کیا کرتا ہے اسی قدر بقول ؎ ” کرمہاے تو مارا کرو گستاخ “۔ لوگ شرارت کرتے ہیں اور اپنی عزت قدر ومنزلت کھوتے ہیں ہم (اللہ) نے تو آدم زاد انسان کو بڑی عزت دی ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں پر انکو حکومت بخشی ہر ایک جاندار بے جان کے استعمال کا ان کو اختیار ہے اور ہم ان کو برو بحر یعنی خشکی اور تری میں اٹھا لے جاتے ہیں خشکی میں بذریعہ اونٹ‘ گھوڑے‘ ہاتھی‘ خچر اور ریل وغیرہ کے اور دریا اور سمندر میں بذریعہ کشتی‘ جہاز اور لگنبوٹ وغیرہ کے اور ہم ان کو لذیز اور پاکیزہ نعمتوں سے رزق دیتے ہیں ایسی ایسی نعمتیں کہ دیگر حیوانات ان کا فضلہ بھی بصد خوشی کھاتے ہیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر ہم نے ان کو فضیلت بخشی کہ جس کو چاہیں اپنے استعمال میں لائیں اور جو کام جس سے چاہیں لیں یہ سب کچھ کریں مگر اپنے تئیں ہمارا فرمانبردار بنائیں تاکہ ان کی بنی بنائی عزت دنیا میں بھی محفوظ رہے اور جس دن ہم تمام انسانوں کو ان کے پیشوائوں کے نام کے ساتھ بلائیں گے اس دن بھی عزت پاویں۔ کیونکہ اس روز یعنی قیامت کے دن ہر ایک قوم اپنے اپنے پیشوا کے نام پر بلائی جاوے گی مثلاً یہودیوں عیسائیوں محمدیوں کو یوں کہا جاویگا۔ کہ اے موسائیو ! عیسائیو ! مسلمان محمدیو ! اسی طرح کافروں کو بھی ان کے پیشوائوں کے ناموں پر پکارا جائے گا مثلا آریوں اور سکھوں کو کہا جاویگا اے دیانندیو ! اے نانک کے سکھو ! پس یہ لوگ سنتے ہی خود بخود جمع ہوجائیں گے اور آپ اقرار و اعتراف کرلیں گے کہ ہم فلاں شخص کے تابعدار تھے ) بعض مسلمان جو اس آیت سے تقلید ائمہ کا ثبوت نکالا کرتے ہیں ان کی یہ کوشش ناکام ہے کیونکہ اس آیت میں تو ہر ایک انسان کو بلائے جانے کا ذکر ہے پھر اگر وہ امام برحق ہے یعنی ایسا ہے کہ اللہ نے اس کو واجب الاتباع بنایا ہے جیسے حضرات انبیاء علیہم السلام تو اس کے ساتھ والوں کی نجات اور رستگاری ہوگی اور اگر وہ امام خود ساختہ ہے تو الٹا یہ سوال ہوگا کہ کیوں اس کو واجب الاتباع بنایا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ آیت موصوفہ کو تقلید ائمہ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ١٢ منہ ( پھر اگر وہ شخص ان کا واقعی متبوع اور سچا پیشوا ہوا تو انکو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا نہیں تو بائیں میں نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا وہ خوشی خوشی اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور آپ سے آپ ہی خوش و خرم ہوں گے اور ان پر کسی طرح سے ذرہ بھر بھی ظلم نہ ہوگا اور جو کوئی اس دنیا میں بد اعمالی کی وجہ سے اندھا رہا ہوگا ایسا کہ بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے کا مستحق ہو پس وہ آخرت میں بھی اندھا ہو اور بہت دور راہ بھٹکا ہوا بس ان کو یہ صاف صاف باتین سنا دے اور سمجھا دے کہ ابھی سے اپنا نفع نقصان سوچ لو ایسا نہ ہو وقت پر تم کو تکلیف ہو گو انکی شرارت اور ضدیت کی یہ حد ہے کہ اپنی ہٹ پر ایسے جمے ہیں کہ خود تو ان واہیات خیالات کو کیا ہی چھوڑیں گے الٹے تجھ سے الجھتے ہیں کہ تو ہی ہم کو یہ تعلیم دینی چھوڑ دے یہاں تک کہ تجھے ہمارے اتارے ہوئے اس حکم سے جو ہم نے بذریعہ وحی تیری طرف بھیجا ہے بچلانے لگے تھے اور کامل کوشش سے تیرے دل کو اپنی طرف پھیر لیتے اور اپنے مطلب کی کہلا لیتے تاکہ تو ہم پر کسی اور حکم کا جو ہم نے نہیں بھیجا افترا کرے بجائے توحید کے شرک سکھائے گویہ خیال تجھ جیسے عالیشان نبی سے بہت ہی دور ہے مگر ان کی کوشش میں تو شک نہیں پھر یہ فورا تجھ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ہم (اللہ) تجھ کو تیرے نور نبوت سے مضبوط اور قابو نہ رکھتے تو عجب نہ تھا کہ بتقاضائے بشریت تو کسی قدر تھوڑا بہت ان کی طرف جھک جاتا جس سے تمہاری صلح اور دوستی ہوجاتی مگر کیا انکی دوستی تیرے کچھ کام آتی ہرگز نہیں ہم اسی وقت تجھ کو زندگی اور موت کا دگنا عذاب کرتے پھر تو ہمارے سامنے کسی کو مددگار نہ پاتا کسی کو جرات نہہ ہوتی کہ ہمارے سامنے بات بھی کرسکے انکی کوشش کی تو یہانتک نوبت پہنچی ہے کہ یہ لوگ اس تگ و دو میں ہیں کہ جس طرح ہو تجھے اس مکہ کی سرزمین سے اوچاٹ کر کے اس سے نکالدیں پھر من مانی گپیں ہانکتے پھریں مگر یاد رکھیں کہ مکہ سے تیرے نکلنے کی دیر ہے کہ پھر فورا ہی یہ لوگ بھی تیرے بعد بہت ہی تھوڑی مدت ٹھیریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے بعد ساتویں سال مکہ فتح ہوا جو لوگ اسلام لائے وہ تو سعادت پا گئے اور جو انکار ہی پر مصر رہے وہ ادھر ادھر منتشر ہوگئے جن رسولوں کو ہم (اللہ) نے تجھ سے پہلے بھیجا ہے انکا دستور یاد کر کہ ان کے نکلنے پر قوم کی خیر نہ ہوتی تھی اور تو یاد رکھ کہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے برتائو کا ردو بدل کبھی نہ پاوے گا لیکن ایسی تائید ایزدی پانے کیلئے ضرور ہے کہ تو اے نبی اللہ کے احکام کی پوری پوری اطاعت کیا کر جیسا کہ ہمیشہ سے کرتا رہا ہے