سورة الإسراء - آیت 41

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِيَذَّكَّرُوا وَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُورًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے سمجھایا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ، اور یہ ان میں نفرت ہی بڑھاتا ہے ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(41۔60) ہر چندان بیوقوفوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی اور قرآن شریف میں ہر ایک ہدایت کی بات کو کھول کھول کر ہم (اللہ) نے بتلایا تاکہ یہ کسی طرح سمجھیں مگر انکو کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ انکو دین حق سے نفرت ہی زیادہ ہوئی ہے کیوں ہوئی؟ اس لئے کہ ان کے دلوں میں کفرو شرک کی بنیاد مضبوط جگہ پکڑ چکی ہے اور قرآن شریف ان واہیات خیالات کا رد کرتا ہے پس یہی وجہ نفرت کی ہے اے نبی بطور نصیحت تو ان سے کہہ کہ اگر اللہ کے ساتھ یعنی اس کے ہوتے ہوئے اور معبود بھی ہوتے جیسے کہ یہ مشرک کہتے ہیں تو فورا اللہ مالک الملک نے ذوالجلال والاکرام کی طرف چڑھنے کی راہ نکالتے کہ کسی طرح اس پر غالب ہوں کیونکہ الہ یا اللہ کی ذات کو اس سے عار ہوتی ہے کہ کسی کی ماتحت رہ سکے اللہ اور معبود کیا اور ماتحی کیا؟ کیونکہ ماتحتی عجز کی علامت ہے اور عجز الوہیت کی صریح نقیض ہے بس اگر کوئی شخص معبود کہلا کر کسی کا ماتحت ہے تو عاجز ہے اور عاجز معبود نہیں پس اگر چند معبود دنیا میں ہوتے تو ضرور فساد ہوجاتا آپس میں کٹ مرتے اور مخلوق تباہ ہوچکتی سنو ! وہ اللہ ایسے حالات سے پاک ہے اور انکی بیہودہ گوئی سے جو یہ کہتے ہیں بہت بلند ہے اسکے دامن قدس تک اسکا غبار بھی نہیں پہنچ سکتا وہ تو ایسی ذات ستو دہ صفات ہے کہ تمام ساتوں آسمان اور زمینیں اور جو ان میں رہتے ہیں اسکو پاکی سے یاد کرتے ہیں بنی آدم ہی پر حصر نہیں دنیا میں جتنی چیزیں ہیں سب اسکی تعریف کے گیت گاتی ہیں مگر تم بوجہ اسکے کہ انکے محاوروں سے واقف نہیں ہو انکی تسبیح نہیں سمجھ سکتے ہاں اس امر پر یقین رکھو کہ وہ اللہ بڑاہی بردبار اور بخشنے والا ہے جو کوئی اسکا ہو رہے وہ اسپر مہربان بھی ہے اور جو اس سے ہٹے اسکی اسے بھی پروا نہیں یہی وجہ ہے کہ کافر فاسق بدمعاش اور آوارہ گرد قرآن سے مستفید نہیں ہوسکتے اور جب تو اے رسول قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے درمیان اور آخرت کے منکروں کے درمیان ایک مخفی پردہ کردیتے ہیں جو لوگوں کی آنکھوں سے مستور ہوتا ہے یعنی ان کی عبادت اور جہالت اور حق سے عناد سب مل کر انکو فہم مطالب سے مانع ہوتے ہیں اور ہم (اللہ) انکے دلوں پر غلاف اور کانوں میں ایک قسم کا بوجھ ڈال دیتے ہیں مگر وہی جو دیکھنے میں نہیں آتا تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھیں لیکن یاد رہے کہ یہ سب کچھ جو ان نالائقوں سے کیا جاتا ہے اپنے اپنے سبب سے وجود پذیر ہوتا ہے یعنی بے پرواہی سے جہالت اور جہالت سے حق کی عداوت اور عداوت سے دل کی غفلت مگر چونکہ ان سب اسباب کا مسبب اور علۃ العلل ذات باری جل شانہ ہے اسلئے وہ ان سب حوادثات کو اپنی طرف نسبت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم ایسا کرتے ہیں ورنہ ان لوگوں کی بے ایمانی خود ان کی اس سزا کی متقاضی ہے کیا تو نہیں جانتا کہ یہ لوگ کیسے کیسے افعال شنیعہ کرتے ہیں اللہ کے سوا اسکی مخلوق کو پوجتے ہیں۔ بڑی بھاری وجہ ان کی اس گمراہی کی یہ ہے کہ اللہ کی پاک توحید سے منکر ہیں اور جب تو قرآن میں اپنے واحد پروردگار کو بغیر کسی ساجھی اور شریک کے یاد کرتا ہے تو نفرت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں جو کچھ یہ کرتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں جس نیت سے تیرے پاس آکر کلام سنتے ہیں جس وقت یہ تیری طرف کان لگاتے ہیں اور جس وقت یہ مشورے اور سر گوشیاں کرتے ہیں۔ یعنی جس وقت ظالم اور بدمعاش بے ادب گستاخ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ میاں تم تو معاذ اللہ ایک مخبوط الحواس آدمی ( محمد علیہ السلام) کے پیچھے چل رہے ہو ان سب واقعات اور ان کی ہر ایک قسم کی باتوں کو ہم خوب جانتے ہیں اسی کے موافق ان کو نتیجہ ملے گا دیکھ تو کس طرح کی تیرے حق میں بیہودہ مثالیں دیتے ہیں چونکہ ان کی شرارت حد سے بڑھ گئی ہے پس یہ ایسے گمراہ ہوئے ہیں کہ راہ حق نہیں پاسکیں گے۔ تیرے حق میں تو یہ بکواس کرتے ہی تھے اللہ کی قدرت میں یوں شک کرتے ہیں کہ اس کے جزا و سزا کے وعدوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کیا جب مر کر ہم ہڈیاں اور ریزے ریزے ہوجائیں گے تو اس کے بعد ہم پھر کسی نئی پیدائش میں اٹھائے جائیں گے؟ بھلا ایسا کبھی ہوسکتا ہے؟ تو ان نادانوں کو کہہ اللہ ضرور ایسا ہی کریگا تم چاہے پتھر بن جائو یا لوہا یا کوئی اور چیز جو تمہارے خیال میں بہت بڑی ہو تب بھی وہ تم کو دوبارہ زندہ کر ہی لے گا پس یہ جواب سن کر کہیں گے بھلا کون ہم کو دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو کہیو وہی اللہ مالک الملک جس کے قبضہ قدرت میں تمام جہان کی حکومت ہے اور جس نے تم کو پہلی دفعہ ماں کے پیٹ سے پیدا کیا ہے پھر یہ سن کر جواب تو کچھ دے نہ سکیں گے مگر تیری طرف سر جھکا کر کہیں گے بھلا وہ دن کب ہوگا جو تو کہتا ہے تو کہئیو کیا عجب کہ قریب ہی ہو مجھے اس کی تاریخ تو معلوم نہیں البتہ اتنا بتلاتا ہوں جس دن وہ (اللہ) تمہیں زندہ کرنے کو بلاوے گا تو تم اسکی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے اور تم اس وقت سمجھو گے کہ دنیا میں بہت تھوڑی مدت ٹھہرے تھے پس اے نبی ان سے تو اتنی ہی بات پر بس کر اور میرے (یعی اللہ کے) نیک بندوں کو کہہ کہ مخالفوں سے بات چیت اور بحث و مباحثہ کرتے ہوئے بہت ہی نیک اور درست بات کہا کریں ) مسحور سے مراد مخبوط الحواس ہے نہ کہ جادو شدہ کیونکہ دوسری آیت میں أُم بہ جنۃ کفار کا قول ہے یعنی آنحضرت کی طرف جنون کو منسوب کیا ہے ان دونوں آیتوں کے ملانے سے ثابت ہوا کہ مسحور سے مراد مخبوط الحواس ہے۔ پس جس حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت پر جادو کیا گیا تھا وہ اس آیت کے برخلاف نہیں فافہم (منہ) ( کیونکہ ایسی ویسی سخت گوئی کرنے سے شیطان ان میں فساد ڈلوا دے گا پھر جو فائدہ مباحثات اور مناظرات سے مد نظر ہوتا ہے وہ ہاتھ سے جاتا رہے گا اس لئے کہ شیطان انسان کا صریح دشمن ہے۔ سخت گوئی سے تمہارے مخاطبوں کو طیش آئے گا جس کے باعث وہ ہدائت سے رک جاویں گے اور تم بھی اس گناہ میں مبتلا ہو گے کہ تمہاری وجہ سے لوگ ہدائت سے رکے پس تم ہرگز ہرگز سخت کلامی نہ کیا کرو تمہارا پروردگار تم کو خوب جانتا ہے وہ اگر چاہے تو تم سب پر رحم فرمادے اور اگر چاہے تو تم کو عذاب میں مبتلا کرے مگر وہ زور سے کسی پر ناحق ظلم نہیں کیا کرتا بلکہ جو جس لائق اور قابل ہوتا ہے اس کو دیتا ہے اور ہم نے تجھ کو (اے رسول) ان پر ذمہ دار افسر کرکے تو نہیں بھیجا کہ ان کو زبردستی مسلمان ہی بنا بلکہ صرف پہنچا دینا تیرا کام ہے پڑے جھک ماریں اپنا سر کھائیں نہ مانیں تیرا کیا لیں گے؟ تمہارا پروردگار تمام آسمان والوں اور زمین والوں کو خوب جانتا ہے گو ہم نے بہت سے نبی بھیجے اور ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر بزرگی اور فضیلت بھی دی ہے اور حضرت دائود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی مگر ان میں بھی کوئی اس درجہ پر نہ تھا کہ بندوں کی حاجت میں دخیل ہوسکتا تو ان سے کہہ کہ اللہ کے سوا جن لوگوں کو تم اختیار والے جانتے ہو ان کو پکارو اور ان سے دعائیں مانگو پھر دیکھیں کہ وہ تمہیں کیا دیتے ہیں یاد رکھو پکار نا تو کیا چلائو بھی تو پھر بھی وہ تم سے تکلیف دور نہ کرسکیں گے اور نہ پھیر سکیں گے چاہے ان میں کتنے کتنے اعلیٰ درجے والے بزرگ لوگ بھی ہیں حضرت مسیح اور عزیر اور شیخ عبد القادر جیلانی جیسے صالح لوگ بھی تو یہ نہیں کرسکتے بلکہ جن لوگوں کو یہ لوگ ( مشرکین اور یہود و نصاریٰ) اپنی اپنی حاجات کے لئے پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی عبادت کرنے سے ان کے پاس قرب چاہتے تھے اور اسی فکر میں رہتے تھے کہ کون بہت نیک کام کر کے اپنے پروردگار کا زیادہ مقرب ہے اور اسی پروردگار کی رحمت کی امید کھتے ہیں اور اسکے عذاب سے ڈرتے تھے۔ کیونکہ تیرے پروردگار کا عذاب واقعی ڈرنے کی چیز ہے اور اگر یہ لوگ اسی شرارت اور بد معاشی پر جمے رہے تو ایک نہ ایک دن تباہ کئے جاویں گے کیونکہ دنیا میں جو کوئی بستی یا قوم ہے ان کو ہم ضرور بالضرور قیامت سے پہلے پہلے تباہ یا سخت عذاب میں مبتلا کرنیوالے ہیں جیسے جیسے ان کے اعمال ہونگے ویسا ان سے برتائو کیا جا وے گا یہ حکم کتاب الٰہی میں لکھا ہوا ہے اور اس کے علم میں ایسا ہی آچکا ہے پس ان کو چاہئے کہ ہوش سنبھالیں اور بار بار شرارت کے سوال نہ کیا کریں۔ یہ جو بار بار اور باوجود معجزات دیکھنے کے بھی معجزے مانگتے ہیں اور طرح طرح کے سوال کرتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ تو آسمان پر چڑھ جا کبھی کہتے ہیں تو صفا مروہ دو پہاڑوں کو سونے کے بنا دے ہمیں اس قسم کے معجزات بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں بجز اس کے کہ پہلے لوگوں نے ان جیسے فرمائشی معجزات کو نہ مانا تھا۔ جس پر ان کی ہلاکت ہوئی مگر چونکہ ان موجودہ لوگوں سے یا ان کی نسل سے ہم نے اسلام کی خدمت بھی لینی ہے اس لیے ہم ایسے فرمائشی معجزے اور نشان نہیں بھیجتے ورنہ پہلے نبیوں کو تو ہم نے کئی ایک معجزے دئیے اور ہم نے ثمود کی قوم کو حضرت صالح کی معرفت ایک اونٹنی کا کھلا نشان دیا جو کسی خاص صورت میں اس کی دعا سے پیدا٭ ہوئی تھی مگر پھر بھی انہوں نے اس سے انکار ہی کیا پس ہلاک ہوگئے اور ہم ہلاکت سے پہلے ایسے واضح نشان صرف ڈرانے ہی کو بھیجا کرتے ہیں جیسے فرعون کی ہلاکت سے پہلے حضرت موسیٰ سے کئی ایک معجزات ظاہر ہوئے تھے جن پر وہ ڈر کر وعدہ کرتا تھا کہ اگر یہ تکلیف ہٹا دیگا تو ہم تیری بات مان لیں گے لیکن جب ہٹ جاتی تو سب کچھ بھول جاتا مگر ابھی تک انکو تو صرف واقعات ہی سے ڈرایا جاتا ہے ) حضرت صالح کی اونٹنی کو کھلا نشان تو کہا گیا ہے مگر یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی پیدائش کس طریق سے ہوئی تھی جن لوگوں نے کہا ہے کہ پتھر سے سے نکلی تھی یہ ان کا محض اپنا خیال ہے۔ کوئی آیت یا حدیث اس دعویٰ کی سند نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس اونٹنی کی پد ائش کسی ایسے طریق سے تھی جو نبوت کے لئے واضح دلیل ہوسکے۔ (منہ) ( کیونکہ ان سے یا ان کی نسل سے اسلام کی خدمت اور دین کی اشاعت کا کام لینا ہے تجھے یاد نہیں؟ جب ہم نے تجھ سے کہا تھا کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے تمام لوگوں کو گھیر رکھا ہے ایک بھی ہمارے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہوسکتا تو تسلی رکھ آخر کار تیری ہی جے ہوگی اور تیرے چشم دید واقعہ کو جو شب معراج تجھے دکھایا گیا ان لوگوں کے حق میں ہم نے موجب ضلالت بنایا دراصل تھا وہ موجب ہدائت مگر یہ لوگ چونکہ اس سے معاندانہ پیش آئے اس لئے گمراہ ہوئے اور وہ ناپسندیدہ اور کریہہ تھوہر کا درخت جو جو قرآن میں مذکور ہے وہ بھی انکے حق میں موجب لغزش ہی ثابت ہوا قرآن میں تو اسکا ذکر عبرت کیلئے تھا مگر یہ لوگ اس پر ہنسی اور مخول کرنے لگے کہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جہنم کی آگ میں درخت بھی ہوں بجائے اس کے کہ اس سے عبرت حاصل کرتے اور ڈرتے الٹے اس پر مخول کرنے لگے اس لئے وہ بھی انکے حق میں مو جب مزید ضلالت ہی ثابت ہوا ہرچند تو بھی انکی ہدائت دل سے چاہتا ہے اور ہم بھی انکو کبھی عذاب سے کبھی واقعات کے سنانے سے ڈراتے ہیں مگر وہ ہمارا ڈرانا ان کو گمراہی اور سرکشی ہی زیادہ کرتا ہے سو یہ انکی بد بختی ہے بقول ہر چہ ہست از قامت نا ساز و بد انجام ماست ورنہ تشریف تو بر بالا سے کس کوتاہ نیست تیرا کچھ بگاڑنہیں سکیں گے اگر عداوت کریں گے تو کچھ نہیں کرسکتے حسد کریں گے تو کچھ نہیں۔