سورة الإسراء - آیت 9

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

یہ قرآن وہ راہ دکھلاتا ہے جو بہت سیدھی ہے ، اور نیک اعمال مومنین کو بشارت دیتا ہے ، کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے ، (ف ١) ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(9۔22) یہ احکام تو ہم نے بنی اسرائیل کو بتائے تھے اب تم مکہ والوں سے خطاب ہے سنو ! کچھ شک نہیں کہ یہ قرآن شریف وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے عمدہ اور مضبوط ہے کسی دلیل عقلی یا نقلی سے غلط نہیں ہوسکتا بلکہ براہیں عقلیہ سے مدلل ہے اور ایمانداروں کو جو ایمان لا کر اخلاص کامل سے نیک عمل بھی کرتے ہیں قرآن سریف ان کو خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر اور ثواب ہے اور یہ خبر بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ دوسری زندگی یعنی قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ان کیلئے ہم نے دکھ کی مار تیار کی ہے لیکن یہ سب کچھ سن سنا کر بھی نالائق لوگ پروا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ سرکشی کرتے ہیں اصل یہ ہے کہ انسان کی خو خصلت ہی ایسی ہے دیکھو تو اسکی جہالت کہ یہ نالائق انسان بسا اوقات اپنے حق میں برائی کی دعا ایسی کرتا ہے جیسی بھلائی کی کیا کرتا ہے غصے میں جلدی سے اپنی اولاد کے حق میں بھی بد دعا کرنے لگ جاتا ہے کہ اللہ تم کو ہلاک کرے تمکو یہ کرے وہ کرے میں ہلاک ہوجائوں وغیرہ وغیرہ چونکہ اس وقت جہالت کا اس پر غلبہ ہوتا ہے اس لئے اپنے نفع نقصان نہیں سمجھتا اور اصل میں انسان جلد باز بھی ہے ہر بات میں جلدی چاہتا ہے یہاں تک کہ قدرتی افعال ہیں ردو بدل چاہتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ ہم نے دنیا میں مختلف قسم کی پیدائش بنائی ہوئی ہے ہر ایک میں کوئی نہ کوئی فائدہ متصور ہے دیکھو تو ہم نے دن اور رات کو اپنی قدرت کے دو نشان بنائے ہیں کہ ایک میں اعلی درجہ کی روشنی ہے ایسی کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی دوسری میں سخت اندھیرا ہے ایسا کہ بعض اوقات آدمی کو اپنا ہاتھ بھی دکھائی نہیں دیتا پھر ہم رات کا نشان مٹا کر دن کو واضح اور روشن کرتے ہیں تاکہ تم بذریعہ کسب اور ہنر دن کے وقت میں اپنے پروردگار کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔ اور مہینوں اور برسوں کی گنتی اور روزانہ حساب بھی معلوم کرسکو اور اس سے علاوہ اور کئی قسم کے فوائد ہیں جن کو تم نہیں سمجھ سکتے مگر ہم نے ہر ایک چیز کو مفصل جانا ہوا ہے کیا مجال کہ کوئی چیز ہمارے علم سے باہر ہوسکے مگر نالائق انسان ہر طرح سے شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ ہم نے ہر ایک انسان کے اعمال نیک ہوں یا بد اس کے گلے کے ہار بنا دئیے ہیں مجال نہیں کہ کوئی کام خواہ کتنے ہی پردوں میں کیا ہو ضائع یا گم ہوسکے اور قیامت کے روز ہم اس کی کتاب اعمال کی نکالیں گے وہ اس کو اپنے سامنے کھلا پاوے گا ایسا کہ کوئی کام اس کا ایسا نہ ہوگا جو اس کتاب میں نہ ہوا اس کو حکم ہوگا کہ اپنی کتاب اعمال پڑھ لے تو آج اپنا حساب کرنے کو آپ خود کافی ہے پس سنو کہ جو کوئی اس روز کے ڈر سے ہدائت پاتا ہے اور عمل نیک کرتا ہے وہ صرف اپنے ہی لئے ہدائت پاتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور کسی کو نہیں اور جو گمراہ ہے داس کا وبال بھی اسی پر ہوگا اور کسی پر کیا ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو قاعدہ مقرر ہے کہ کوئی نفس کسی نفس کا بوجھ نہیں اٹھائیگا اور اگر یہ خیال ہو کہ اللہ یوں ہی کسی کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے تو سنو ! ہم کسی قوم کو عذاب اور مواخذہ نہیں کیا کرتے جب تک ان کی طرف رسول نہ بھیجیں پھر وہ لوگ اس رسول کے ساتھ مخالفت اور عناد و شقاق سے پیش آتے ہیں تو غضب الٰہی کا حکم ان پر لگ جاتا ہے اور سنو ! جب کسی بستی کی بد عملیوں اور شامت اعمال پر ان کو تباہ اور ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس بستی کے امیروں اور آسودہ لوگوں کو اور زیادہ بڑھاتے ہیں ایسے کہ پھر وہ اس بستی میں جی کھول کر بدکاریاں کرتے ہیں پس ان پر عذاب کا حکم لگ جاتا ہے پھر ایک ہی دفعہ ہم سب کو تباہ کردیتے ہیں ایسے کہ ان کا نام لیوا بھی کسی کو نہیں چھوڑتے۔ اس کی نظیر سنو ! حضرت نوح (علیہ السلام) سے پیچھے کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کی ہیں یہ نہیں کہ بے گناہ ہی تباہ کردیں بلکہ ان کی شرارتوں کی وجہ سے کیں گو لوگ بوجہ نادانی اور بے خبری کے ان کو بے گناہ جانیں مگر تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے پورا خبردار اور دیکھنے والا ہے اسے کسی کے بتانے کی حاجت نہیں ہمارے یعنی اللہ کے ہاں یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو کوئی اپنے کردار و اعمال سے دنیا میں جلدہی بدلہ کا طالب ہوتا ہے یعنی صرف وہی کام کرتا ہے جو اسکو دنیا ہی میں نافع اور مفید ہوں اور دین کی طرف اس کو ذرہ بھی پرواہ نہیں ہوتی اور نہ وہ چاہتا ہے بلکہ ایسی باتوں کو ملائوں کی سی باتیں کہکر نہایت حقارت سے ٹھکرا دیتا ہے تو ہم بھی ایسے نالائقوں کو اسی دنیا میں جلدی بدلہ دیدیتے ہیں جس کو ہم چاہتے ہیں کئی ایک دنیاوی کوشش میں بھی ناکام رہتے ہیں چنانچہ یہ امر مشاہدہ میں بھی اسی طرح ثابت ہے لیکن ایسے کو تہ اندیش کو جو صرف دنیا ہی کا طالب ہو اور دین اور آخرت کا راغب نہ ہو تھوڑا سا اس دنیا میں ہم دے دلا کر آخرت کی دائمی نعمتوں سے اس کو محروم کردیتے ہیں پھر اس کے لئے جہنم مقرر کردیتے ہیں جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوگا وہاں چیخے چلائے گا کچھ مفید نہ ہوگا اور جو آخرت کا ارادہ کرے مگر نہ صرف ارادہ ہی ارادہ ہو کہ ابھی جنت میں چلا جائوں اور نیک کام کرے کرائے کچھ بھی نہیں بقول شخصے ؎ جی عبادت سے چرانا اور جنت کی ہوس تو ایسے بوالہوس کو کہا جا ویگا ؎ کام چور اس کام پر کس منہ سے اجرت کی ہوس بلکہ اسی دھن میں رہے اور اسکے مناسب کوشش کرے اور ایماندار بھی ہو یعنی جو کچھ کرے وہ محض اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے کرے نہ کہ کسی کے دکھاوے کو پس ان لوگوں کی محنت اور سعی اللہ کے ہاں مقبول ہوگی یوں تو ہم اپنی عامہ عطاء اور ربوبیت کے صیغے سے ان میں سے ہر ایک کو دنیا کا طالب ہو یا آخرت کا اپنی مہربانی سے مدد دیتے ہیں یہ ہوں یا وہ ہوں کسے باشد ربوبیت کے صیغے میں سب برابر ہیں انہی معنے سے تو تیرے پروردگار کی عطا اور تربیت کسی سے بند نہیں کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا چناں پہن خوان کرم گسترد کہ سمیرغ اور قاف قسمت خورد دیکھو تو ہم نے ایک کو دوسرے پر کیسی فضیلت دی ہے مگر افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر جو اس دنیاوی فضیلت اور ظاہری اعزاز اور وجاہت پر غرہ ہوجاتے ہیں اور فرعون بے سامان بنکر اہل دین پر غراتے ہیں اور مسخریاں کرتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ آخرت اپنے درجوں اور فضیلتوں میں کہیں بڑھ چڑھ کر ہے دنیا کا اس سے مقابلہ ہی کیا؟ مقابلہ کے نام سے شرم چاہئے پس اسے مخاطب اگر تو آخرت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مت بنائیو ورنہ تو ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں بیٹھے گا