وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
اور اللہ نے کہا ہے ، کہ وہ معبود نہ ٹھہراؤ وہ معبود ایک (ہی) ہے ، سو مجھی سے ڈرو (ف ٢) ۔
(51۔65) پس سنو ! اللہ نے حکم دے رکھا ہے کہ متعدد معبود نہ بنائیو کیونکہ حقیقی معبود بس ایک ہی ہے پس مجھ (اللہ) ہی سے ڈرتے رہو تاکہ تمہارا بھلا ہو اور تم کامیاب ہو۔ تم نہ سمجھو کہ تمہاری اطاعت اور فرمانبرداری سے کچھ اس کا فائدہ ہے۔ نہیں اس لیے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ سب اسی کا ہے اسی نے انکو پیدا کیا اور وہی فنا کردیتا ہے اور کر دے گا اور اسی کی بندگی دائمی ہے اس کے سوا جن لوگوں نے خدائی کا ڈنکا بجایا چند ہی روز بعد لوگوں کو بلکہ خود ان کو بھی اپنی غلطی معلوم ہوگئی آخر جب اللہ کی پکڑ میں آئے تو لگے اللہ اللہ پکارنے پس جب آخر کار اسی سے مطلب ہے تو کیا پھر اب صحت اور سلامتی کے وقت تم اللہ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو کہ ہائے اگر ان کے نام کی نذر و نیاز نہ دیں گے تو وہ نقصان پہنچائیں گے یا کوئی نعمت ہم سے چھین لیں گے۔ سنو ! جتنی کچھ نعمتیں تمہارے پاس ہیں سب کی سب اللہ کے ہاں سے ہیں اور جب تم کو کوئی سخت تکلیف پہنچتی ہے تو پھر بھی اسی کی طرف چلاتے اور بلبلاتے ہوئے آتے ہو اور کہتے ہو ہائے مولا ! ہماری یہ تکلیف دور کر دے پھر جب وہ اپنی مہربانی سے اس تکلیف کو تم سے دور کردیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں سے اسی دم اپنے پروردگار سے شرک کرنے لگ جاتے ہیں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو غیروں کی طرف نسبت کرتے ہیں اللہ اگر اولاد دیتا ہے تو اس کا نام ایسا رکھتے ہیں جس سے شرک مفہوم ہوجیسے دیوی دتا۔ میراں بخش۔ پیر بخش۔ نبی بخش۔ سالار بخش۔ مدار بخش۔ پیراں دتا۔ وغیرہ اس لئے تاکہ کسی طرح ہماری دی ہوئی نعمت کی ناشکری کریں۔ اچھا تو پس چند روزہ زندگی گذار لو آخر جان لو گے بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی اور ان کی جہالت سنو ! کہ جن چیزوں کی ماہیت کو بھی نہیں جانتے انکے لیے ہمارے دئیے میں سے حصے مقرر کرتے ہیں مثلاً کھیتی ہم پیدا کرتے ہیں اور یہ نادان اسی میں سے اپنے باطل معبودوں کے حصے مقرر کرلیتے کہ اتنا حصہ فلاں بت اور اتنا فلاں قبر والے کا سو اللہ کی قسم اس بہتان بندی کا تم سے ضرور سوال ہوگا۔ اور ان کی بے ہودہ گوئی سنو ! کہ اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں وہ ان کی بیہودہ گوئی سے پاک ہے کیا اللہ کی بیٹیاں اور ان کے لیے جو چاہیں؟ من مانے بیٹے حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے تولد ہونے کی خبر ملتی ہے تو رنج سے منہ تو اس کا کالا ہوجاتا ہے اور غصہ سے زہر کے گھونٹ پیتا ہے بیٹی کی خبر کے رنج کے مارے برادری سے چھپا چھپا پھرتا ہے اور دل میں منصوبے بناتا ہے اور سوچا کرتا ہے کہ آیا باوجود اس ذلت اور خواری کے جو اس لڑکی ہونے سے مجھ پر آئی ہے اس کو زندہ رکھ لوں یا زمین میں زندہ درگور کر دوں۔ سنتے ہو ! لڑکی کو ایسا برا جانتے ہیں پھر بھی لڑکیاں اللہ کی طرف نسبت کرتے ہیں دیکھو ! تو ان لوگوں کی کیا ہی بری سمجھ ہے جس سمجھ سے یہ امر تجویز کرتے ہیں پتھر ایسی عقل پر جو آدمی اتنا بھی نہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ جو میرا مالک ہے میں اس کی نسبت کیا عقیدہ اور خیال رکھتا ہوں اس سے تو گدھا بھی اچھا ہے سچ ہے کہ آخرت کے منکروں کی بہت ہی بری کہاوت اور تمثیل ہے واقع میں گدھوں اور کتوں سے بھی بدتر ہیں اور اللہ کی تمثیل تو سب سے بلند اور اعلیٰ ہے اور وہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے سچ جانو اگر اللہ لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے پکڑتا تو دنیا پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا بنی آدم کو تو اس لیے کہ وہ خود بدکار ہیں حیوانات کو اس لیے کہ انکی زندگی انسانوں کی زندگی سے وابستہ ہے لیکن ایسا نہیں کرتا بلکہ باوجود ان کی شرارتوں کے ایک مقرر وقت تک ان کو مہلت دیتا ہے پس جب ان کی اجل آپہنچے گی تو نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے یعنی نہ تو اجل آئے زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ بغیر آئے مر سکتے ہیں۔ اور سنو ! اللہ کے حق میں ایسی چیزیں نسبت کرتے ہیں جن کو اپنے لئے مکروہ جانتے ہیں با ایں ہمہ نجات کی امید رکھتے ہیں اور اپنی زبان سے جھوٹ کہتے ہیں کہ آخرت میں ان کے لئے بھلائی ہے کچھ شک نہیں کہ آخرت میں ان کے لئے آگ کا عذاب ہے اور یقینا جانو کہ دوزخ میں ان کو اوروں سے زیادہ عذاب کیا جاوے گا کیونکہ انہوں نے سیدالانبیاء علیہم السلام کو پایا تاہم انکاری رہے واللہ یعنی ہم (اللہ) کو اپنی ذات ستودہ صفات کی قسم ہے ہم نے تجھ سے پہلے کئی ایک قوموں کی طرف رسول بھیجے کہ لوگوں کو راہ راست پر لائیں اور بھولے ہوئے بندوں کو مالک کے دروازہ پر لا جھکائیں مگر پھر بھی شیطاننے ان کے بداعمال جو وہ رسولوں کے آنے سے پہلے کرتے تھے وہی ان کی نظروں میں اچھے کر دکھائے یہ نہ سمجھو کہ شیطان اللہ کی تدبیر اور خواہش پر غالب آگیا کہ اللہ نے تو ان کی ہدایت چاہی مگر شیطان نے ان کو گمراہ ہی رکھا ایسا نہیں اللہ کا چاہنا کئی طرح سے ہے اختیاری اور قہری۔ قہری یعنی جس کام کے متعلق اس کا یہ ارادہ ہو کہ ہونا ہی چاہئے وہ تو ضرور ہو کر رہے گا مجال نہیں کہ اس میں تخلف ہو اور جو کام اختیاری اور بندوں کے اختیار پر چھوڑے ایسے کاموں کو بندے اگر کریں تو اجر پاتے ہیں اور اگر نہ کریں تو مستوجب سزا ہوتے ہیں جیسے قتل و غارت‘ چوری‘ زنا‘ جھوٹ وغیرہ بدکاری کرنے سے اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے لیکن ایسا منع نہیں جیسا افعال قہریہ پر منع ہوتا ہے بلکہ اختیاری طور سے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں اکثر ایسے افعال شنیعہ لوگ کر رہے ہیں ٹھیک اسی طرح شیطان نے ان پر غلبہ پایا تھا پس وہی اس دن یعنی قیامت کے روز ان کا قریبی ہوگا اور ان کو دکھ کی مار ہوگی ہم نے تجھ پر یہ کتاب اس لئے اتاری ہے کہ مذہبی امور میں تو لوگوں کے اختلافی امور کا بیان واضح طور سے کر دے یعنی دنیا کی قومیں جو نجات کے مسئلہ میں باہمی مختلف ہیں ان کو ایک سیدھی شاہ راہ پر لا اور بتلا دے کہ بغیر لا الہ الا اللہ یعنی سچی توحید اور نیک اعمال کے نجات نہ ہوگی نہ کوئی کسی کا کفارہ ہوگا نہ بغیر مواخذہ کوئی چھوٹ سکے گا اور یہ کتاب ایمانداروں کے لئے جو اس کی ہدائت کے مطابق نیک اخلاق و نیک اعمال کرتے ہیں رحمت اور ہدایت ہے اس کتاب کے نزول سے اہل عرب حیران کیوں ہوتے ہیں اور تعجب کیوں کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ بادلوں سے پانی اتارتا ہے پھر اس سے زمین کو بعد خشک ہوجانے کے تازہ کردیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کا تقاضا ہے کہ جب روحانیت لوگوں میں کمزور ہوجاتی ہے تو اس کے تازہ کرنے کو اللہ کسی اپنے کامل بندے کو پیدا کردیتا ہے پھر جس درجے کمزور ہوتی ہے اسی درجہ وہ مامور بندہ قوت پا کر آتا ہے اس زمانہ (نزول قرآن کے وقت) چونکہ حد سے زیادہ خشکی اور کمزوری ہو رہی ہے ایسی کہ جن لوگوں میں پہلے الہام کی تازگی تھی وہ خود ہی نیم مردہ بلکہ مردم پرستی اور تثلیثی ایمان سے بالکل مردہ ہوچکے ہیں اس لئے تیرے جیسا شاہ زور رسول بلکہ سید الرسل علیہم السلام کا اور قرآن جیسی پاک کتاب کا جو تمام مذاہب کے بیہودہ خیالات کی اصلاح پر شامل ہے اس کام کے لئے آنا ضروری تھا جو لوگ دل کے کان لگا کر سنتے ہیں ان کے لئے اس مذکور میں دلیل مل جاتی ہے کہ وہ ظاہری نظام عالم پر غور کر کے نصیحت پا جاتے ہیں اور سنو ! اگر تم نصیحت چاہو تو ہر چیز سے تم کو نصیحت مل سکتی ہے۔