سورة النحل - آیت 1

أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ کا حکم آیا چاہتا ہے سو اس کی جلدی نہ کرو ، انکے شرک سے وہ پاک اور بلند ہے ۔ (ف ١) ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔50) اللہ کا حکم تمہارے حق میں آیا چاہتا ہے پس تم اسے جلدی نہ مانگو کیونکہ اس کی جلدی چاہنے میں مجرموں کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے فائدہ ان کا تو نیک اعمال کرنے اور بدافعال کے چھوڑنے میں ہے سو شرک چھوڑ کر توحید اختیار کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بے ہودہ خیالات اور شرک سے پاک اور بلند ہے اس میں بھی ان کی ضد بے جا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ شخص باوجود بے وسعتی کے اللہ کا رسول کس طرح ہوگیا اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے اپنا حکم دے کر فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ لوگوں کو اطلاع کر دو اور نہ ماننے پر ڈرا دو کہ میرے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں پس تم قدرتی امور میں مجھ ہی سے ڈرو اس میں کسی مخلوق کا کیا اختیار نہ وہ کسی سے مشورہ طلب کرتا ہے نہ کسی سے رائے کا اظہار چاہتا ہے اسی اللہ نے آسمان و زمین سچے نتیجے سے پیدا کئے ہیں کیا اس نے کسی سے امداد یا مشورہ لیا تھا؟ ہرگز نہیں وہ ان کے شرک کرنے اور بے ہودہ گوئی سے پاک ہے کیسی تعجب کی بات ہے کہ اس نے انسان کو منی کے ناچیز قطرہ سے پیدا کیا تو پیدا ہوتے ہی وہ کھلم کھلا اللہ کے بارے میں جھگڑالو بن بیٹھا ہے اسی نے تمہارے لئے چارپائے پیدا کئے ہیں جن میں تمہارے لئے جاڑے کے کپڑے اور کئی ایک قسم کے فوائد ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو اور ان چارپائوں کو قطار کی قطار جب تم دن ڈھلے گھروں کو واپس لاتے ہو اور دوپہر سے پہلے جب تم ان کو باہر لے جاتے ہو ان دونوں وقتوں میں وہ تمہارے لئے باعث سجاوٹ ہوتے ہیں کیونکہ ان کی آمد و رفت ایسی بھلی معلوم ہوتی ہے کہ دیکھنے سے متعلق ہے نیز جس گھر سے وہ قطار بن کر نکلتے ہیں ان گھر والوں کی ایک گو نہ عزت لوگوں کے دلوں میں سمجھی جاتی ہے اور وہ چار پائے ایسے مقاموں تک تمہارے بوجھ اٹھا کرلے جاتے ہیں جہاں پر بغیر سخت مشقت کے تم نہ پہنچا سکو پس تم اس سے نتیجہ پائو کہ بیشک تمہارا پروردگار تمہارے حال پر بڑا ہی مہربان ہے ایسے مہربان سے بگاڑ کرنا اپنا ہی کچھ کھونا ہے اسی نے گھوڑے خچریں اور گدھے تمہاری حاجت روائی کو پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو اور نیز وہ تمہاری زینت اور موجب عزت ہیں کیونکہ آسودہ آدمی بلا ضرورت بھی رکھا کرتے ہیں اور اس کے علاوہ تمہاری سواری کے لئے ایسی چیزیں بھی پیدا کرے گا جن کو تم اس وقت نہیں جانتے وہ بذریعہ ریل اور اگنبوٹ ہوائی جہاز وغیرہ تم کو سفر کرائے گا پھر ایسے مالک سے بگاڑ کر کیا فائدہ پا سکتے ہو ہاں اس میں شک نہیں کہ سب مذاہب کا رخ اپنے اپنے زعم میں اللہ ہی کی طرف ہے کیونکہ سب اہل مذاہب اسی بات کے مدعی ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے راضی کرنے کو کرتے ہیں مگر چونکہ حقیقت میں بعض ان میں ٹیڑھے بھی ہیں اس لئے کامیاب نہیں ہوتے اور نہ ہوں گے گو راستی کے سب مدعی ہیں مگر نرا دعویٰ بالکل اس کے مشابہ ہے کل یدعی وصلا للیلی و لیلی لاتقر لھم بذاکا اور اگر وہ چاہتا تو سب کو ہدایت کردیتا کسی کو مجال نہ تھی کہ اس کے چاہے کو روک سکے لیکن وہ افعال اختیار یہ میں جبر نہیں کیا کرتا وہی اللہ معبود برحق ہے جو بادلوں سے تمہارے لئے پانی اتارتا ہے اس میں تمہارے پینے کے قابل ہے اور اسی سے تمہارے درخت پرورش پاتے ہیں جنہیں تم اپنے مویشیوں کو چراتے ہو اسی پانی سے وہ تمہارے لئے کھیتی اور زیتون اور کھجوریں اور انگور اور ہر قسم کے پھل پھول پیدا کرتا ہے بیشک اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت بڑی نشانی ہے اسی نے تمہارے لئے رات اور دن سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے اور تمام ستارے بھی اسی کے حکم سے کام میں لگے ہوئے ہیں غرض کوئی چیز بھی دنیا کی مستقل بالذات نہیں بیشک عقلمند قوم کے لئے اس میں بہت سے نشان ہیں وہ ادنیٰ توجہ سے سمجھ جاتے ہیں کہ موجود بالغیر بغیر کسی موجود بالذات کے ہو ہی نہیں سکتا اور دنیا میں جن جن مختلف رنگ چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے ان سب میں نصیحت پانے والے لوگوں کے لئے بہت بڑی نشانی ہے یعنی جو لوگ نیک دل ہوں اور جی میں کسی علمی اصول یا سچی تعلیم کے ماننے پر مستعد ہوں ان کے لئے نظام عالم کے واقعات میں بہت سے ہدایت کے دلائل ہیں وہ ادنیٰ توجہ سے جان جاتے ہیں کہ جب کہ کوئی فعل بغیر فاعل کے نہیں تو اس اتنے بڑے ڈھانچ کا بھی کوئی کارساز ہے اور سنو ! وہی حقیقی معبود ہے جس نے سمندر کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے کہ تم اس میں سے تر و تازہ مچھلیوں کا گوشت کھاتے ہو اور زیور موتی جواہرات کے اقسام نکالتے ہو جنہیں تم پہنتے ہو یہ سب اسی کی پیدائش ہے اور تو اے دیکھنے والے بڑے بڑے جہازوں کو دیکھتا ہے کہ پانی کو چیرتے ہوئے اس دریا میں چلے جا رہے ہیں پانی کو یہ قوت دی ہے کہ لکڑی کو اٹھا لے اور لکڑی کو یہ حکم ہے کہ پانی کے نیچے نہ بیٹھے غرض دونوں کو اس تدبیر سے بنایا ہے کہ تمہارا کام چلے اور تاکہ بذریعہ تجارت تم اس کا فضل پائو اور شکر منائو اور سنو ! اس نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ قائم کر دئیے ہیں کہ زمین پانی کی کثرت سے کہیں تمہیں لے نہ گرے اور خود رو دریا اور پہاڑوں اور جنگلوں میں قدرتی راستے بنائے تاکہ تم جنگلوں میں راہ پائو اور اس کے علاوہ کئی ایک ہدایت کے نشان پیدا کئے ہیں اور یہ تو صریح امر ہے کہ یہ لوگ ستاروں کی چال سے دریائوں میں راہ پاتے ہیں اتنے آثار قدرت کاملہ دیکھ کر بھی اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف جھکتے ہیں اور استمداد کرتے ہیں تو کیا پھر یہی بات ہے کہ ان کے نزدیک خالق غیر خالق جیسا ہے افسوس کیا تم اس رائے کی غلطی سمجھتے نہیں ہو ایسی عقل پر پتھر جو اتنی بات بھی نہ بتلا سکے کہ وجود عدم سے ہمیشہ اشرف ہوتا ہے یہ تو بہت تھوڑی سی نعمتیں تم کو بتلائی ہیں اور اگر ساری کی ساری اللہ کی نعمتیں گننی چاہو تو کبھی پوری نہ کرسکو گے کوئی دم اور کوئی آن ایسی نہیں کہ اس کی نعمتوں کا ورود تم پر نہ ہو باوجود اس قدر نعمتوں کے پھر بھی جو تم اس کے بندوں کو اس کے برابر کر کے اسے ناراض کرتے ہو اور وہ تمہیں جلد مواخذہ نہیں کرتا تو یقین جانو کہ بے شک اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے اور سنو ! تم یہ بات دل سے نکال دو کہ اللہ تمہارے دل کے حالات نہیں جانتا تم جو چاہو کرلو خبردار ! جو کچھ تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اللہ کو سب کچھ معلوم ہے اور اللہ کے سوا جن لوگوں کو یہ مشرک لوگ پکارتے ہیں ان کی قدرت کی یہ حد ہے کہ وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں محل موت ہیں نہ دائم الحیات اور علم کی یہ قلت ہے کہ ان کو اتنی بھی خبر نہیں کہ قبروں سے کب اٹھائے جائیں گے لوگو ! یقین جانو ! کہ تمہارا معبود ایک ہے سو جن لوگوں کو آخرت کی زندگی پر ایمان نہیں ان کے دل اس خالص توحید سے منکر ہیں اور وہ اس انکار میں متکبر ہیں محض ضد اور ہٹ سے انکاری ہیں ورنہ دلائل ایسے واضح اور صریح ہیں کہ ادنیٰ عقل کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے چنانچہ یہی ایک دلیل کافی ہے کہ ام نجعل التقین کالفجار۔ یعنی اللہ فرماتا ہے کہ اگر بعد مرنے کے اعمال کی جزا سزا نہیں تو پھر کیا نیک بخت اور بدبخت دونوں یکساں ہوجائیں گے جو خدائی انصاف سے صریح دور ہے پس یقینی بات ہے کہ لوگ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کراتے ہیں سب اللہ کو معلوم ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ متکبروں سے محبت نہیں کرتا یہی تو تکبر ہے کہ حق بات کو قبول نہ کرنا جو یہ لوگ کر رہے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اللہ نے کیا کچھ بھیجا ہے یعنی قرآن کی نسبت تمہاری کیا رائے ہے تو کہتے ہیں میاں ! کیا پوچھتے ہو اللہ نے تو کچھ بھیجا نہیں وہ تو محض پہلے لوگوں کے من گھڑت قصے ہیں ان کے اس قول کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے روز اپنے گناہ اور جن ماتحت بے سمجھ لوگوں کو جہالت سے گمراہ کرتے ہیں ان کے گمراہ کرنے کے گناہ پورے کے پورے اٹھائیں گے ذرہ بھر کمی نہ کی جائے گی دیکھو تو کیسا برا اور سخت بوجھ اٹھائیں گے جس سے ان کی کمریں ٹوٹ جائیں گی اس کی برداشت کی ان کو طاقت نہ ہوگی۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس دائو بازی میں کامیاب ہوں گے مگر ان کو خبر نہیں کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح حق کے مٹانے میں تدبیریں اور منصوبے کئے تھے سو اللہ نے ان کی جڑ بنیاد اکھاڑ دی ایسی کہ ان کی چھتیں ان پر آپڑیں اور جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا ان پر عذاب آیا پھر قیامت کے دن ابھی اور ان کو اللہ رسوا کرے گا اور کہے گا کہ میرے شریک جن کی بابت تم بضد ہوا کرتے تھے آج کہاں ہیں۔ اس وقت وہ تو خاموش سر جھکائے ہوئے نادم و پریشان ہوں گے مگر علم دار اور سمجھ والے لوگ جو دنیا میں ان اوہام باطلہ سے بچے ہوئے ہوں گے سنتے ہی کہیں گے آج کے روز ذلت اور رسوائی اس سوال کے جواب نہ دینے سے جو کافروں پر پڑی ہے وہ کسی دوسرے پر کیوں پڑنے لگی کون کافر ! وہ لوگ جو مرنے تک یعنی جس وقت فرشتے ان کی جانیں نکالتے تھے اور وہ کفر و شرک کرنے سے اپنے نفسوں پر ظلم و ستم کرتے رہے یعنی مرتے دم تک کافر رہے۔ پس وہ یہ سن کر ان کے حواس باختہ ہوجائیں گے پھر اور تو ان کو کچھ نہ سوجھے گی اطاعت کی التماس کرنے لگیں گے اور نہایت نرمی سے بولیں گے کہ ہم تو برے کام نہ کرتے تھے اس سے غرض ان کی یہ ہوگی کہ جس طرح دنیا میں حکام مجازی کی عدالت میں انکار پر بسا اوقات مجرم کو فائدہ ہوجایا کرتا ہے اسی طرح شاید یہاں بھی ہو اس کے جواب میں ان سے کہا جائے گا کہ ہاں صاحب ٹھیک آپ نے کبھی برا کام کیا ہی نہیں تمہارے انکار و اقرار کی حاجت ہی نہیں اللہ تمہاری کرتوتوں سے جو تم دنیا میں کرتے تھے مطلع ہے پس اب چلئے باتیں نہ بنائیے جہنم کے دروازوں میں گھسئے جہاں تم کو ہمیشہ رہنا ہوگا کیونکہ متکبروں کا بہت ہی برا ٹھکانہ ہے تکبر بھی ایسا کہ بقول شخصے بازی بازی باریش بابا بازی آپس میں ایک دوسرے سے ضد کرتے کرتے اللہ سے بھی تکبر کرنے لگے تو ایسوں کا برا ٹھکانہ کیوں نہ ہو اور پرہیزگاروں سے جب قرآن کی بابت سوال ہوتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا کچھ نازل کیا ہے تو وہ بلا تامل کہتے ہیں کہ بہت عمدہ اور سب سے اچھا بابرکت کلام نازل کیا ہے نہ صرف منہ سے اس کے قابل ہوتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں اصل تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ہے انہی کے لئے آخرت میں بھلائی ہے اور اگر سمجھیں تو آخرت کا گھر ہی سب سے عمدہ ہے اور پرہیزگاروں کا گھر تو بہت ہی اچھا ہے ایسا کہ دنیا میں کسی شہنشاہ کو بھی نصیب نہیں۔ کیسا گھر ! ہمیشہ کے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جو کچھ وہ چاہیں گے ان کے لئے مہیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح پرہیزگاروں کو بدلہ دے گا کون پرہیزگار جو مرنے کے وقت یعنی جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ شرک کفر بداخلاقیوں نیز خصائل رذیلہ سے پاک و صاف ہوتے ہیں فرشتے ان سے بوقت قبض ارواح بادب السلام علیکم کہتے ہیں کہ تشریف لائے اپنے نیک عملوں کے عوض جنت میں داخل ہوجائیے پس جو نیک دل ہیں ان کو صرف اتنا ہی کافی ہے اور وہ اس پر غور کرنے سے نتیجہ پا سکتے ہیں کہ کرنے والا اور نہ کرنے والا برابر نہیں ہوتے خصوصاً منصف عادل حاکم کے سامنے اور جو بدعادت بدخصلت ہیں جیسے یہ تیرے مخاطب یہ تو اب صرف اس بات کی انتظاری میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آویں یا تیرے پروردگار کے عذاب کا حکم آوے یعنی تباہ کئے جائیں اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے کیا تھا چنانچہ وہ تباہ کئے گئے اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ وہ خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے تھے پس انجام ان کے ظلم کا یہ ہوا کہ ان کے اعمال کی برائیاں ان کو پہنچیں اور نبیوں سے سن کر جس عذاب الٰہی کی ہنسی اڑاتے تھے وہی ان پر آ نازل ہوا۔ اسی طرح ان سے ہوگا بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے جو کہتے ہیں سنو ! مشرک کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو نہ تو ہم اور نہ ہمارے بزرگ اس کے سوا کسی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہم کسی چیز کو اس کے حکم کے سوا حرام سمجھتے غرض ان کی اس دلیل سے یہ ہے کہ اللہ ہمارے افعال سے خوش ہے تو ہم کرتے ہیں بھلا اگر وہ ناراض ہوتا تو کیا ہم کرسکتے تھے؟ ہرگز نہیں۔ پھر تو کیوں ہم کو ان کاموں پر وعید سناتا ہے مگر حقیقت میں ان کو سمجھ نہیں خدائی مشیت اور رضا میں فرق نہیں جانتے بے شک جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مشیت سے ہو رہا ہے مجال نہیں کہ اس کی مشیت کے سوا کوئی کام ہوسکے کیونکہ مشیت اس کے قانون کا نام ہے جب تک کسی کام کو حسب قانون فطرت نکرو گے کبھی کامیاب نہ ہو گے جب تک گرمی حاصل کرنے کے لئے آگ نہ جلائو گے پانی سے وہ کام نہیں نکل سکے گا جو کام فطرت نے پانی سے متعلق کیا ہے وہ آگ سے نہ ہوگا۔ یہی تلوار جس کا کام سر اتار دینا ہے جہاں اس کو چلائو گے اپنا اثر دکھاوے گی خواہ کسی مظلوم پر ہو یا ظالم پر چنانچہ ہر روز دنیا میں ناحق خون بھی ہوتے ہیں لیکن ان سب کاموں پر رضا الٰہی لازمی نہیں بلکہ رضا اسی صورت میں ہوگی کہ ان سب اشاء کو حسب ہدایت شریعت استعمال کرو گے بس یہ بے سمجھی نہیں تو کیا ہے کہ مشیت اور رضا میں فرق نہیں کرتے اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے کیا تھا بے ہودہ واہی تباہی عذرات رکیکہ گھڑتے تھے تاکہ ان کو گناہ کرتے ہوئے شرم دامنگیر نہ ہو۔ رسولوں پر تو ان کی ایسی بے ہودہ گوئی کا کوئی اثر نہیں کیونکہ رسولوں کے ذمہ صرف یہی فرض ہے کہ اللہ کے احکام واضح لفظوں میں پہنچا دیں اور بس اسی اصول سے ہم نے ہر ایک امت میں رسول بھیجے تھے کہ لوگوں سے کہو اللہ کی عبادت کرو اور ماسوا اللہ کی عبادت سے بچو پھر ان میں سے بعض کو تو اللہ نے ہدایت کی یعنی توفیق خیر عنایت کی کہ وہ تابع فرمان ہوگئے اور بعض کو گمراہی چمٹ گئی کیوں چمٹ گئی‘ اس لئے کہ وہ حق سے بضد پیش آتے تھے پس تم زمین پر پھر کر دیکھو کہ نبیوں کے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا بد ہوا اصل یہ ہے کہ جب آدمی ضد پر ہو بیٹھے تو کوئی بات اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی یہی وجہ ہے کہ اگر ان کی ہدایت کی خواہش بھی کرے تو بھی ہدایت پر نہ آویں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرچکے یعنی جس کی ضد اور شرارت کی وجہ سے اس کو راندہ درگاہ کر دے اس کو ہدایت نہیں کیا کرتا اور ان کے لیے مددگار بھی نہیں ہوتا اس سے زیادہ شرارت اور ضد کیا ہوگی کہ بلاوجہ بے سوچے سمجھے کلام الٰہی کا انکار کرتے ہیں اور سخت سخت قسمیں اللہ کے نام کی کھاچکے ہیں کہ اللہ مرے ہوئوں کو کبھی نہ اٹھائے گا اور نہ ہی کسی نیک و بد پر جزا سزا ملے گی کیوں نہیں ضرور اٹھائے گا اس بات کا اس نے سچا وعدہ کیا ہوا ہے کہ میں نیک و بدکاموں پر جزا و سزا ضرور دوں گا لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے اور سمجھتے نہیں کہ اللہ کی جناب میں یہ بے انصافی کیونکر ہوسکتی ہے کہ نیک و بد مر کر سب یکساں ہوجائیں پس یقینا جانو کہ وہ ضرور اٹھائے گا تاکہ جن شرعی باتوں میں لوگ مختلف ہیں ان کو بیان کر کے بتلا دے یعنی ایمانداروں کو نیک عوض دے اور کافروں کو سزا تاکہ کافروں کو یقین ہوجائے کہ بیشک وہ جھوٹے تھے کیونکہ زبانی سمجھانے سے تو کچھ نہیں ہوتا عملی ثبوت جب تک نہ ہو علم یقینی حاصل نہیں ہوا کرتا اور ان کو جو یہ شبہات ہو رہے ہیں کہ مر کر کس طرح زندہ ہوں گے یہ تو سب فضول ہیں ہم جب کسی کام کو کرنا چاہیں تو بس ہمارا اتنا ہی کہنا اس کے لیے کافی ہوتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتا ہے مجال نہیں کہ تخلف کرے جن لوگوں نے اس امر پر غور کی ہے اور اللہ کی قدرت اور عظمت کا اثر اپنے دل پر جمایا ہے وہ تو فوراً مان جاتے ہیں چاہے مخلوق سے ان کو کتنے ہی صدمات پہنچیں مگر وہ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں ممکن نہیں کہ ٹل جائیں ایسوں کی اللہ بھی مدد کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ظالموں سے تنگ آ کر مظلوم ہونے کے بعد محض دین کی حفاظت کو اپنے وطن مالوف کو چھوڑ آئے ہیں ہم (اللہ) ان کو دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر اور ثواب تو بہت ہی بڑا ہے۔ کاش کہ ان کو کچھ بھی خبر ہوتی یہ کون لوگ ہیں وہ جو تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار ہی پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی اور پر اسی سے مانگتے ہیں اسی سے لیتے ہیں سچ پوچھو تو یہی لوگ خلاصۃ البریہ ہیں یہی مایہ ناز دنیا ہیں انہی سے دنیا کی بقا ہے ان کے سوا باقی لوگ تو سب کے سب فضول ہیں ایسے فضول لوگوں کی پہچان ہمیشہ فضول گوئی ہے جیسے یہ تیرے مخاطب کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول آدمی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ فرشتے ہونے چاہئیں یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی نہ تو دلیل عقلی مساعدت کرتی ہے نہ واقعات گذشتہ کی تاریخ کیونکہ ہم نے تجھ سے پہلے بنی آدم میں سے مردوں ہی کو رسول کر کے بھیجا ہے جن کو ہم وحی کیا کرتے تھے۔ مکہ والو ! تمہیں اگر یہ واقعات بھول گئے ہوں یا علم نہ ہو تو ان واقعات کو یاد رکھنے والے علمداروں یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ لو جو ہمیشہ پیغمبروں کے حالات جس قدر ان کے پاس ہیں پڑھتے پڑھاتے رہتے ہیں وہ باوجود ہماری مخالفت کے تم سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ بیشک اللہ کے نبی ہمیشہ سے آدمی ہی ہوتے چلے آئے ہیں ہمیشہ رسول کھلے کھلے نشان اور واضح مسائل لے کر آتے رہے جیسا تو آیا ہے اور ہم نے تیری طرف نصیحت کی بات قرآن کی تعلیم بھی اسی لئے اتاری ہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں سے اترا ہے تو اس کو واضح کر کے بیان کر دے کہ وہ بعد بیان ہوجانے کے اس میں فکر کریں اور نتیجہ پاویں کیونکہ تو قرآن کا صرف مبلغ ہی نہیں بلکہ شارح اور مفسر بھی ہے کیا پھر قرآن سن کر بھی بدکار لوگ اس امر سے بے خوف ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے ان پر عذاب آئے کہ ان کو خبر بھی نہ ہو یا ان کو چلتے پھرتے صحیح سلامت پکڑ لے یا ان کو ڈرا ڈرا کر پکڑے کہ پہلے کچھ تھوڑی سی تکلیف پہنچائے پھر اور اس سے زیادہ غرض وہ سب کچھ کرسکتا ہے یہ لوگ اس کو کسی امر میں عاجز نہیں کرسکتے اور نہ کسی طرح تھکا سکتے ہیں۔ پھر جو باوجود قدرت کاملہ کے دنیا میں ان سے مواخذہ نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کرتا کہ تمہارا پروردگار بڑا ہی مہربان نہایت رحم والا ہے اس کے رحم کی کوئی حد نہیں جس پر وہ رحم کرنا چاہے کوئی اسے روک نہیں سکتا اصل میں اس کی مہربانی اور رحم ہی کا نتیجہ ہے کہ بقول ” کرم ہائے تو مارا کرد گستاخ“ ان کی شرارتیں اور گستاخیاں اسی وجہ سے ہیں کہ وہ ان کو جلدی پکڑتا نہیں ورنہ کیا یہ لوگ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو نہیں دیکھتے؟ کہ ان کے سائے کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف کو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جھکتے ہیں اور وہ خود بخود فرمان الٰہی کے آگے ذلیل اور فرمانبردار ہوتی ہیں مجال نہیں کہ قہری فرمان الٰہی کو کوئی روک سکے کیسی ہی سخت اور بے جان چیز کیوں نہ ہو جب خدائی حکم اس کو پہنچتا ہے فوراً اس کے لیے مستعد ہوجاتی ہے اور نہیں دیکھتے کہ جو چیزیں آسمان اور زمین میں ہیں وہ اور فرشتے سب کے سب اللہ کی اطاعت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور اس اطاعت کرنے میں وہ کسی طرح کا تکبر نہیں کرتے اپنے رب سے جو ان پر حاکم ہے ڈرتے ہیں اور جس بات کا ان کو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اس لیے تو اللہ ان سے راضی ہے تم بھی اگر اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہو تو اس کی فرمانبرداری کرو۔