قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
بولے اے ہمارے باپ ہمارے گناہوں کے لیے اللہ سے مغفرت مانگ ، بیشک ہم خطاکار تھے
(97۔111) وہ بولے اے باباہمارے لئے اللہ سے بخشش مانگ بے شک ہم بڑے گنہگار ہیں حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے کہا میں تہجد کے وقت تمہارے لئے اللہ سے بخشش مانگوں گا وہ وقت قبولیت کا ہے امید ہے کہ اللہ قبول کرے گا کیونکہ وہی بڑا بخشنے والا مہربان ہے اس کے بعد یوسف ( علیہ السلام) کا پیغام باپ کو سنایا چونکہ وہ پہلے ہی سے مشتاق تھا اس نے فوراً تیاری کا حکم دیا پس وہ سب کے سب تیار ہو کر چل پڑے اور مصر کے قریب پہنچے تو یوسف (علیہ السلام) نے باپ کے آنے کی خبر سن کر شہر سے باہر بغرض استقبال خیمے لگا دئیے جب یوسف ( علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو اس نے ماں باپ کو تو اپنے پاس جگہ دی اور بھائیوں کو کسی قدر فاصلہ سے اور سب سے مخاطب ہو کر کہا کہ امن و امان سے شہر میں داخل ہو چلو انشاء اللہ تمہیں کسی طرح کی تکلیف نہ ہوگی اور شہر میں پہنچ کر اس نے ایک جلسہ کیا جس میں ماں باپ کو اس نے اونچے سے تخت پر جو خاص اسی غرض سے بنایا تھا بٹھایا اور بھائی اس کے سامنے آداب مجری بجا لائے یعنی عاجزانہ سلام کیا اور یوسف ( علیہ السلام) نے باپ سے کہا بابا جان یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج مجھے سجدہ کرتے ہیں گو اس وقت چاند اور سورج سے مراد آپ دونوں صاحب ہیں اور آپ تخت پر ہیں مگر چونکہ میرے ہی حکم سے آئے ہیں اور یہاں پر بیٹھے ہیں اس لئے گویا آپ بھی بوجہ زیر فرمان ظاہری ہونے کے مجھے سجدہ کر رہے ہیں الحمدللہ کہ میرے پروردگار نے اسے سچا کیا اور مجھ پر بڑا ہی احسان کیا کہ ایسی سخت کسمپرسی کی حالت میں قید خانہ سے مجھے نکالا اور مخلوق کی خیر خواہی کا کام بھی میرے سپرد کیا اور بعد اس سے شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں کدورت ڈال دی تھی وطن سے تم سب کو میرے پاس لایا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ میرے بھائیوں نے ذرہ سی بات پر مجھ سے حسد کیا تو اللہ نے اس عزت اور حشمت پر مجھے پہنچایا کہ ان کو خواب و خیال بھی نہ تھا کچھ شک نہیں کہ میرا پروردگار جو چاہے نہایت آسانی سے کرسکتا ہے بے شک وہ بڑے علم والا اور بڑی حکمت والا ہے یہ کہہ کر اللہ کی طرف جس سے یہ سب کچھ اسے ملا تھا متوجہ ہو کر دعا کرنے لگا کہ اے پروردگار ! تو نے مجھے اپنی مہربانی سے حکومت بخشی حکومت بھی ایسی کہ ہر فرد بشر کی گویا زندگی کا سہارا ہے رزق کا انتظام میرے ہاتھ دے دیا اور مجھ کو اسرار اور رموز کی باتوں کی سمجھ عنایت کی اے میرے مولا ! آسمانوں اور زمینوں کے پیدا کرنے والے دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا متولی اور کارساز ہے دنیا میں تو تو نے بہت کچھ دیا آخرت کے لئے آرزو ہے کہ مجھے اخیر تک اپنا فرمانبردار رکھیو اور فرمانبرداری کی حالت میں ماریو اور اپنے نیک بندوں سے ملائیو اللہ نے یوسف ( علیہ السلام) کی دعا قبول کی۔ یہ ہے مختصر قصہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اور یوسف ( علیہ السلام) کا اس پر غور کریں تو ادنیٰ سمجھ کا آدمی بھی اس میں بہت سا نتیجہ پا سکتا ہے بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ غیب کی باتیں سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور یہ کہ اللہ اگر کسی پر احسان کرنا چاہے تو کوئی مانع نہیں ہوسکتا اور یہ کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تکلیف کو کوئی ہٹا نہیں سکتا خواہ کتنا ہی بلند رتبہ اور عالی قدر بھی کیوں نہ ہو یہ قصہ غیبی باتوں سے ہے جو ہم اے رسول تیری طرف الہام کرتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس نہ تھا جب وہ باپ سے فریب کرتے ہوئے اپنے کام پر متفق ہوئے تھے کہ یوسف ( علیہ السلام) کو ضرور ہی کنوئیں میں ڈال دینا چاہئے مگر اللہ کی بتلائی ہوئی وحی سے تو بتلاتا ہے لیکن یہ جاہل کہاں سنتے ہیں اور اکثر ان لوگوں میں کے کبھی نہ مانیں گے گو تو ان کے ایمان کی خواہش اور حرص بھی کرے اور لطف یہ ہے کہ تو ان سے کوئی بدلہ بھی نہیں مانگتا کہ میری تعلیم پر عمل کرنے والے اور مجھ سے فائدہ اٹھانے والے مجھے کچھ مشاہرہ دیا کریں مگر وہ قرآن جو تو تعلیم دیتا ہے تمام جہان والوں کے لئے نصیحت ہے اسی پر بس نہیں ان کی شرارت اور غفلت کا کیا ٹھکانہ ہے بہت سی نشانیاں آسمانوں اور زمینوں میں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے ہیں اور ان کی پرواہ تک نہیں کرتے اور جو کوئی ان میں اللہ کے قائل بھی ہیں ان میں بھی اکثر ایسے ہیں کہ اللہ کو مان کر شرک بھی اس کے ساتھ کرتے رہتے ہیں اللہ سے بھی دعائیں مانگتے ہیں اور بزرگوں سے بھی۔ کسی صاحب دل نے کیا اچھا کہا ہے اللہ سے اور بزرگوں سے بھی کہنا یہی ہے شرک یارو اس سے بچنا تو کیا یہ جو ایسے غافل ہیں اور بے پرواہی میں زندگی گزار رہے ہیں یہ اس سے بے خوف ہیں کہ مبادا اللہ کے عذاب سے کوئی آفت ان پر آپڑے یا ان کی بے خبری میں ان کی موت کی گھڑی ان پر آجائے اور سانس لینا بھی نصیب نہ ہو پھر تو مرتے ہی داخل عذاب ہوں گے گو یہ ضد پر ہیں تو بھی محض ان کی بہتری کی غرض سے ان سے کہہ کہ یہ میرا طریق ہے کہ میں اور میرے تابعدار دلیل سے نہ کہ کو را نہ آبائی تقلید سے اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں اور بلند آواز سے اللہ کی پاکی بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ سب عیبوں اور نقصانوں سے پاک ہے اور میں خود اعلان کرتا ہوں کہ میں مشرکوں میں نہیں ہوں اور ان کی جہالت سنو کہ ان کے دل میں یہ بات جم رہی ہے کہ اللہ کا رسول آدمی نہیں ہوسکتا بلکہ فرشتہ ہونا چاہئے حالانکہ ہم نے جتنے رسول تجھ سے پہلے بھیجے ہیں ان بستیوں میں رہنے والے لوگوں میں سے مرد ہی تھے کوئی فرشتہ نہ تھا ان کو نہ تو زمانہ کی تاریخ سے خبر ہے نہ جغرافیہ سے واقف ہیں یونہی جو جی میں آتا ہے دیوانے کی سی بڑ ہانک دیتے ہیں کیا انہوں نے ملک میں بغور سیر نہیں کی کہ دیکھتے کہ جو مشرک اور اللہ کے حکموں کے مقابلہ پر ضد کرنے والے ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیسا ہوا کہ باوجود اس طاقت اور شاہ زوری کے آج ان کا نام لیوا بھی کوئی نہیں اور پرہیزگاروں کے لئے آخرت کا گھر سب سے اچھا ہے کیا تم عقل نہیں کرتے کہ اتنی بات بھی سوچ سکو کہ دنیا کا عیش و عشرت خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو کبھی عیش مصفا نہیں ہوسکتا ہمیشہ مکدر رہتا ہے اول تو کوئی نہ کوئی تکلیف خواہ موسمی ہو یا بدنی۔ بیرونی ہو یا اندرونی ضرور ہی لاحق رہتی ہے اور اگر فرض کریں کہ کوئی بھی تکلیف نہیں جو فرض محال ہے تو بھی دنیا کی نعمت کا زوال تو سامنے نظر آتا ہے اور اس بات کا یقین دلاتا ہے عمر برف است و آفتاب تموز اند کے ماند و خواجہ غرہ ہنوز اسی طرح پہلے لوگ بھی تکذیب پر بضد رہے یہاں تک کہ رسولوں کو جب ان سے ناامیدی ہوئی اور ایسی تکلیف اور گھبراہٹ میں پڑے کہ اپنے اتباع سے بھی ان کو جھوٹ کا گمان گذرا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ بھی جو ہم سے اظہار عقیدت کرتے ہیں ان تکلیفوں کی وجہ سے کفار سے مل جائیں اور بے ایمان ہو کر ان کی طرح ان کا بھی خاتمہ خراب ہوجائے تو فوراً ہماری مدد آپہنچی پھر جس کو ہم نے چاہا وہ بچایا گیا اور ظالموں کو برباد کیا گیا کیونکہ ہمارا عذاب جب آ پہنچے تو بدکاروں سے ٹلا نہیں کرتا پس ان کو چاہئے کہ اس امر سے نصیحت پاویں اور سمجھیں کیونکہ ان لوگوں کے قصوں میں عقل والوں کے لئے بہت بڑی عبرت ہے یاد رکھو کہ یہ قرآن بناوٹی بات نہیں بلکہ اپنے سے پہلی کتابوں کے سچے واقعات اور صحیح مضمون کی تصدیق ہے اور ہر ایک ضروری مذاہبی امر کی تفصیل اور ایماندار قوم کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ اللہم ارحمنی