سورة البقرة - آیت 142

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھرایا ، جس پر وہ تھے ، تو کہہ اللہ کی مشرق ومغرب ہے ، وہ جس کو چاہے سیدھی راہ بتاوے (ف ١) ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(142۔147)۔ چونکہ تم مسلمان حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے تابع ہو اس لئے مناسب ہے کہ اسی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھو۔ مگر اس کی مصلحت اور حکمت نہ سمجھنے والے بے وقوف لوگ جھٹ سے کہیں گے کہ کسی چیز نے ان مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ بیت المقدس سے پھیردیا جس پر یہ پہلے سے تھے } شان نزول :۔ ١ ؎ (سَیَقول السُّفھآئ) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں تشریف لے گئے تو آپ بیت المقدس کی طرف جو انبیاء کا قبلہ رہا تھا قریباً سولہ مہینے نماز پڑھتے رہے مگر دل میں یہ شوق غالب تھا کہ میں اپنے باپ سید الموحدین ابراہیم (علیہ السلام) کے کعبہ کی طرف نماز پڑھوں چونکہ اس خواہش کے پورا ہونے پر مخالفین (یہود نصاریٰ مشرکین عرب اور چھپے دشمن ان کے بھائی منافقوں) نے شور مچانا تھا اس لئے حکم آنے سے پہلے ہی ان کے حال سے اطلاع دی گیش اور کسی قدر اجمالی اور تفصیلی جوابات کے بعد تحویل قبلہ کا حکم صادر فرمایا کہ تعمیل میں آسانی ہو۔ منہ){ تو ان کے جو اب میں کہہ دیجیو۔ کیا ہم بیت المقدس کی عبادت کرتے تھے کہ اب اس میں فرق آگیا ہرگز نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مشرق مغرب جنوب شمال تو سب اللہ ہی کا ہے ہر ایک طرف سجدہ ہوسکتا ہے ہاں تعین جہت اس کے حکم سے ہے جس طرف کا حکم دے گا اسی طرف کو جھک جائیں گے ہاں یہ بیشک ہے کہ کسی جانب کی تعیین جب بھی ہوتی ہے۔ کہ اس میں کوئی مصلحت اور دوسروں سے ترجیح پائی جائے لیکن ایسے مصلحت آمیز امور ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آیا کرتے اللہ ہی جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے جیساکہ ہم کو اسی نے اس کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اس کے یہ بھی سمجھا دیا کہ ابراہیمی یادگار کا قائم رکھنا مناسب ہے جس نے اللہ کی مرضی کے حاصل کرنے کے لئے تمام لوگوں کی ناگوارسختیوں کو بھی برداشت کیا تاکہ لوگ اس امر کو جان کر کہ اللہ اپنے بندوں کے اخلاص کے موافق قدر افزائی کیا کرتا ہے اخلاص مندی کا سبق حاصل کریں جیسا کہ ہم نے تم کو کعبہ ابراہیمی کی راہنمائی کی ہے اسی طرح ہم نے تم کو ایک اور نعمت بھی عطا کی ہے وہ یہ کہ تم کو میانہ روش بنایا ہے دنیاوی اور مذہبی امور میں افراط تفریط سے بالکل صاف اور ظلم اور بیجا قومی حمایت سے پاک۔ سچ پوچھو تو یہ خصائل ترقی قومی اور بہبودی ملکی کے لئے ضروری ہیں اسی وجہ سے تم (اصحاب) کو ایسا بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر حکمران ہو۔ اور رسول جو ان صفات سے ہر طرح کامل اور مکمل ہے تم پر حاکم بنے } (لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) اس آیت کے معنے جمہور مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ ” تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ بنے“ پھر اس میں اختلاف ہوا ہے کہ یہ شہادت دنیا کے متعلق ہے یا آخرت میں۔ تفسیر کبیر میں پہلے لوگوں کی تقریر میں لکھا ہے۔ فھٰذہ الشھادۃ اما ان تکون فی الاٰخرۃ او فی الدنیا لاجائزان تکون فی الاٰخرۃ لان اللّٰہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لاجل ان یکونوا شھداء وذٰلک یقتضی ان یکونوا شھداء فی الدنیا انما قلنا انہ تعالیٰ جعلھم عدولا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ و ھٰذا اخبار عن الماضی فلا اقل من حصولہ فی الحال و انما قلنا ان ذٰلک یقتضی صیرورتھم شھودا فی الدنیا لانہ تعالیٰ قال وکذٰلک جعلٰنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس رتب کونھم شھداء علٰے صیرورتھم وسطا ترتیب الجزا علے الشرط فاذا حصل وصف کونھم وسطا فے الدنیا وجب ان یحصل وصف کونھم شھداء فی الدنیا (تفسیر کبیر جلد ٢ ص ١٠) یہ شہادت (دو حال سے خالی نہیں) یا تو آخرت میں ہوگی یا دنیا میں (لیکن) آخرت میں تو اس کا ہونا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل اس لئے بنایا تاکہ وہ گواہ بنیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں گواہ ہیں اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اللہ نے ان کو دنیا میں عادل کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے وکذٰلک جعلٰنکم فرمایا ہے اور یہ خبر واقعہ گذشتہ سے دی گئی ہے پس کم سے کم اس کا حصول زمانہ حال میں ہونا چاہیے اور یہ جو ہم نے کہا کہ اس سے ان کا دنیا میں گواہ ہونا لازم آتا ہے اس کی دلیل یہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو امت متوسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر اور رسول تم پر گواہ ہو۔ اس کلام کو ایسا مرتب کیا جیسے شرط جزا ہوا کرتی ہے۔ پس جب ان کا وسط ہونا دنیا میں حاصل ہے تو گواہ بھی دنیا میں ہونا واجب اور ضروری ہوگا“ انتہیٰ) رہاؔ یہ سوال کہ دنیا میں ان کی گواہی کا کیا مطلب۔ سو اس کا جواب ان لوگوں کے نزدیک جو اس شہادت کو دنیا کے متعلق مانتے ہیں یہ ہے کہ اس شہادت سے مراد اجماع ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں اس سے آگے چل کر کہا ہے کہ :۔ فثبت ان لایۃ تدل علیٰ ان الا جماع ججۃ (ج ٢ ص ١) ثابت ہوا کہ آیت اجماع کے حجت ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ بعض لوگ بلکہ اکثر کہتے ہیں کہ یہ شہادت قیامت میں ہوگی جب انبیاء کی امتیں تبلیغ رسل سے انکار کریں گی تو اس وقت امت محمدیہ انبیاء کی طرف سے شہادت دے گی کہ بے شک انہوں نے اپنی اپنی امت کو پہنچا دیا۔ اور جناب رسالت مآب اپنی امت کا تزکیہ کریں گے کہ میری امت کے لوگ سچے گواہ ہیں اس مضمون کی ایک حدیث بھی صحیح مسلم میں آئی ہے جو ان معنے کو تقویت دیتی ہے مگر چونکہ پہلے لوگوں کی دلیل بھی قوی ہے اس لئے امام رحمہ اللہ نے تفسیر کبیر میں دونوں کو جمع کرنا چاہا ہے اور کہا ہے کہ :۔ فالحاصل ان قولہ تعالیٰ فتکونوا شھداء علی الناس اشارۃ ان قولھم عند الاجماع حجۃ من حیث ان قولھم عند الاجماع یبین للناس الحق ویؤکد ذٰلک قولہ تعالیٰ ویکون الرسول علیکم شھیدا یعنے مودیا ومبینا ثم لایمتنع مع ذٰلک لھم الشھادۃ فی الاٰخرۃ فیجری الواقع منھم فی الدنات مجری التحمل لاٰنھم اذا اثبتوا الحق عرفوا عندہ من القائل ومن الرّاد ثم یشھدون بذٰلک یوم القیمۃ کما ان الشاھد علی العقود یعرف ما الذی لم وما الذی ثمّ یتم لم یشھد بذٰلک عند الحاکم (ج ٢ صفحہ ١) حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ تم گواہ بنو گے اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کی بات اجماع کے وقت دلیل ہوگی اس لحاظ سے کہ اجماع کے وقت لوگوں کو حق بتا دیں گے اور اسی کی تائید کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ رسول تم پر گواہ ہوگا یعنی ادا کرنے والا اور بیان کرنے والا یہ ہو کر بھی اجماع حجت ہے اور اس دلیل سے دنیاوی شہادت معلوم ہوتی ہے ممکن ہے کہ قیامت میں بھی ان کی شہادت ہو پس دنیا کی شہادت ان کے حق میں گویا کہ دریافت واقع ہے اس لئے کہ جب انہوں نے دنیاوی شہادت سے ایک امر کو ثابت کیا تو گویا اس وقت وہ ماننے اور نہ ماننے والوں کو جان لیں گے پھر اس بات کی قیامت میں شہادت دیں گے جیسا کہ گواہ وقت بیع عقد تام اور غیر تام کو جانتا ہے پھر اس امر کی حاکم کے پاس شہادت ادا کرتا ہے۔“ انتہیٰ میں کہتا ہوں یہ طریق جمع بین الشہادتین جو امام ممدوح نے بیان کیا ہے اس میں ایک طرح کا شبہ ہے کیونکہ امام صاحب نے دنیاوی شہادت کو بمنزلہ تحمل شہادت کے قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس شہادت کو اس شہادت سے مبائنت ہے اس لئے کہ بعد تسلیم اس امر کے کہ اس آیت سے اجماع کی حجیت ثابت ہوتی ہے یہ کہنا باقی ہے کہ اجماع مثبت فروعات شرعیہ کا ہوتا ہے اور شہادت اخروی جیسے کہ حدیث مذکور سے ثابت ہے امم سابقہ کے مقابلہ پر ہوگی۔ جن کو فروعات شرعیہ محمدیہ سے کوئی علاقہ نہیں پس جب کہ حسب منشاء امام جمع بین الشہادتین ہی ضروری ہے اور یہ امر ہر حال میں اولیٰ اور انسب ہے کہ اس آیت سے دونوں شہادتین مراد ہوں تو کوئی وجہ نہیں۔ کہ شہادت کے معنے گواہی دادن کے لے کر کلام صحیح ہوسکے اس لئے میں نے شہادت کے معنے حکمرانی کے لئے ہیں پس یہ معنی نہ تو حدیث کے خلاف رہے اور نہ امام کے منشاء (جمع بین الشہادتین) کے مخالف ہاں شہادت کے مصداق متنوع ہوں گے یعنی دنیا میں حکمرانی اور نوع کی ہوگی اور قیامت میں اور قسم کی جیسا کہ عموم مجاز یا عموم مشترک (علیٰ تقریر جوازہ) کی صورت میں ہوا کرتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ شہادت کے معنے حکمرانی کے ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ مفسر بیضاوی نے اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شہید حاکم کو بھی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ مجالس میں واسطے تصفیہ مقدمات کے آیا جایا کرتا ہے۔ اور اگر آیت پر غور کیا جائے تو یہی معنے مناسب ہیں۔ اس لئے کہ تحویل قبلہ کا وقت ایک نہایت اضطراب اور بے قراری کا مسلمانوں کے حق میں تھا۔ جس میں ان کو ہر طرف سے کس و ناکس کے اعتراضات سننے پڑتے تھے ایسے موقع پر نہایت ضروری تھا کہ ان کی گھبراہٹ کے دفع کرنے کو کوئی خبر ایسی فرحت بخش سنائی جاتی جس سے ان کے لئے اس گھبراہٹ کا بہت جلد تبادلہ ہوتا چنانچہ بعد تدبران آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کی تسکین ہر طرح سے مقصود تھی کہیں تو ان کو طمع دی جاتی تھی۔ کہیں ان کو کفار کے شر سے بچنے کی تاکید ہو رہی ہے۔ اور بار بار اس امر کی تاکید ہے کہ ضرور اس کام پر پختہ ہوجائو اور کسی کی مت سنو اللہ بھی چاہتا ہے کہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کرے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پس شہداء کے معنے حکمران لینا اور اس کو ایک قسم کی دلجوئی بلکہ پیشگوئی قرار دینا سیاق و سباق سے نہایت مناسب بلکہ انسب ہے ١٢ منہ){ یہ لوگ ایسے بے ہودہ بکواس ہی میں رہ جائیں گے۔ اور تم ان کے دیکھتے ہی ترقی کرجاؤگے۔ جو تمہاری سچائی کی دلیل ہوگی۔ رہا ان ظاہر بین نادانوں کا سوال کہ کبھی کسی طرف نماز پڑھتے ہیں اور کبھی کسی طرف سواس میں بھی کئی ایک مصلحتیں اور حکمتیں ہوتی ہیں جو تمہاری ترقی کے لئے ایک زینہ ہے یادرکھیں کہ تیرا اصل قبلہ تو یہی کعبہء ابراہیمی ہے جس پر اعتراض کررہے ہیں مگر درمیان میں ہم نے اس قبلہ بیت المقدس کو جس کی طرف تو بالفعل متوجہ ہے اس لئے تجویز کیا تھا کہ رسول کے مخلص تابعین کو نافرمانوں اور دوزخی چال والوں سے ممتاز کریں جو سنتے ہی مان جائے گا وہ اخلاص مند ثابت ہوگا اور جو ایچ پیچ کرے گا۔ اس کی گردن کشی ثابت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تمیز بھی نہایت ضروری ہے اس لئے کہ جب تک کسی قوم کے سب لوگ یکجان ہو کر اپنے مقاصد میں ساعی نہ ہوں ترقی مسدود ہوتی ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ انقلاب کعبہ بہت دشوار ہے مگر ایسے لوگوں پر دشوار نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کی ہو اور وہ جانتے ہوں کہ رسول کے احکام ہر حال میں قابل تسلیم ہوتے ہیں شاباش تم ایمانداروں پر جو اپنے ایمان کی حفاظت دل وجان سے کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی تمہارا ایمان اور اعمال صالحہ ضائع نہیں کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے حال پر عموماً اور ایسے مسلمانوں کے حال پر خصوصاً بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے } (شان نزول : (وَمَا کَان اللّٰہُ) تحویل قبلہ سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے ہوئے فوت ہوگئے تھے۔ ان کی بابت ان کے احباب نے حضور مقدس سے سوال کیا کہ ان کی نمازیں مقبول ہوئیں یا نہیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ضائع نہ ہوں گی ١٢ جلالین۔){ تو پھر رحم اور مہربانی اسی کا نام ہے کہ کئے ہوئے کام (نماز روزہ) بھی بلا وجہ ضائع کردے چونکہ تیرا مدت سے یہی جی چاہتا ہے کہ کعبہء ابراہیم کی طرف ہی (جو سب سے اول عبادت خانہ ہے) نماز پڑھے چنانچہ تیرے منہ کا آسمان کی طرف بانتظار وحی پھر ناہم دیکھ رہے ہیں نیز تعیین جہت سے کوئی یہ غرض نہیں کہ اس جہت کی عبادت کرائی جائے بلکہ عبادت تو ہماری ہے تعیین قبلہ تو صرف ایک عارضی امر ہے پس تجھ کو ہم اسی کعبہ کی طرف پھیریں گے۔ جسے تو پسند کرتا ہے لیجئے بس اب سے آئندہ کو اپنا منہ عزت والی مسجد یعنی کعبہ ابراہیمی کی طرف پھیر کر اور عام مسلمانوں کو بھی اعلان دیدو کہ جہاں کہیں تم ہو نماز کے وقت اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو۔ }آریوں اور عیسائیوں کی غلطی : (اپنا منہ عزت والی مسجد کی طرف پھیرا کر) اس آیت کے متعلق بھی نافہم مخالفوں نے کئی طرح سے دانت پیسے ہیں سب سے بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ اسلام نے بت پرستی کو رواج دیا جو سچے مذہب کے شایاں نہیں۔ کس طرح دیا؟ اس طرح کہ کعبہ جو پتھروں کا بنا ہوا مثل ایک بت کے ہے اس کی عبادت کا حکم کیا اور ایسا کیا کہ بغیر اس طرف رخ کرنے کے نماز قبول ہی نہیں ہوتی۔ دوسرا اعتراض نسخ احکام کے متعلق ہے کہ پہلے حکم کو اٹھانا اس کے ناتجربہ اور لاعلمی پر مبنی ہوتا ہے اس لئے جائز نہیں کہ احکام خداوندی میں سے کوئی حکم کسی زمانہ میں صادر ہو کر پھر اٹھا دیا جائے جیسا کہ یہاں پر پہلے کعبہ سے دوسرے کعبہ کی طرف منہ پھرنے کا حکم ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو علام الغیوب ہے۔ یہ خلاصہ ہے ان دفتروں کا جو ہمارے قدیمی مہربان عیسائی اور ہمسایہ قوم آریہ وغیرہ نے بھرے ہیں پہلے سوال کا جواب دو طرح سے ہے اجمالی اور تفصیلی۔ اجمالی تو دو ٹوک بات ہے کہ شرک اور بت پرستی اسے کہتے ہیں کہ غیر اللہ کی عبادت کی جاوے یا کم سے کم اس سے وہ معاملے کئے جاویں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے چاہئیں مثلاً امید بھلائی یا دفع ضرر مگر چونکہ کعبہ کی نسبت اسلام نے کوئی حکم ایسا نہیں دیا بلکہ صاف اور صریح لفظوں میں فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْت فرمایا۔ یعنی کعبہ کے اللہ کی عبادت کریں۔ تو اب اسلام کی نسبت یہ گمان کرنا کہ کعبہ پرستی اور بت پرستی سکھاتا ہے۔ سراسر انصاف کا خون کرنا ہے۔ تفصیلی جواب سے پہلے مسلمانوں کی نماز کا مطلب بیان کرنا بھی کسی قدر مفید ہوگا۔ تاکہ ثابت ہوجائے کہ اسلامی نماز جس پر تمام اہل اسلام فخر کیا کرتے ہیں کہاں تک توحید سے یا شرک سے بھری ہوئی ہے۔ پہلے میں اس نوٹس اذان کا مضمون سناتا ہوں جو نماز پنجگانہ کی حاضری کے لئے تجویز ہوا ہے۔ کچہری (مسجد) کے دروازہ یا کسی کونے میں چپڑاسی (موذن) کھڑا ہو کر بلند آواز سے کہتا ہے کہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھدان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان محمد الرسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ حی علی الصلوۃ حتی علی الصلوۃ حی علی الفلاح حی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔ اللہ تعالیٰ! سب سے بڑا ہے (چار دفعہ) میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود برحق نہیں (دو دفعہ) میں اس امر کا شاہد ہوں کہ محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں (جن کو سوا پیغام پہونچانے کے خدائی میں کسی طرح کا حق نہیں) اے سب سننے والو ! آئو نماز پڑھنے کو (دو دفعہ) آئو عذاب سے رہائی پانے کو (دو دفعہ) اللہ سب سے بڑا ہے (دو دفعہ) سوائے اس کے کوئی بھی معبود برحق نہیں۔ یہ ہے مضمون اس نوٹس کا جو رسول اسلام (فداہ روحی) نے حاضری دربار رب العالمین کے لئے مقرر کیا ہے۔ سچ ہے ع سالیکہ نکوست از بہارش پیداست۔ اس نوٹس کے الفاظ میں نے حاشیہ پر نقل کر دئے ہیں تاکہ ہر موافق مخالف کو یہ موقع ملے کہ مسجد میں جا کر (اللہ کرے کہ سب جائیں) اپنے کان سے سن کر ہماری تصدیق کا اندارہ کرے اب میں اس نماز کا مضمون سناتا ہوں جس کے لئے یہ اعلان تجویز ہے۔ کھڑے ہوتے ہی (بایں خیال کہ میں اس وقت دنیا اور ماسوا اللہ سے علیحدہ ہوں) دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے کہ اللہ اکبر سبحنک اللھم بحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العلمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم والا الضالین۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ کہہ کر نوکروں اور غلاموں کی طرح دونوں ہاتھ باندھ کر اقرار کرتا ہے۔ اے اللہ تو سب عیوب سے پاک ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں بڑی برکت والا ہے نام تیرا اور بلند ہے ذات تیری اور سوا تیرے کوئی معبود نہیں۔ شیطان مردود سے پناہ میں ہو کر اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور اس بات کا صریح لفظوں میں اقرار کرتا ہوں کہ سب تعریفوں کا مستحق اللہ ہی ہے جو سب جہان کا پالنہار ہے بڑا بخشنے والا نہایت مہربان۔ انصاف کے دن کا حاکم (اس کے بعد مخاطب ہو کر اپنی آرزو کا اظہار کرتا ہے کہ) ہم تیری ہی اے ہمارے مولا ! بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے اپنے اڑے کاموں میں مدد چاہتے ہیں تو ہی ہم کو سیدھی راہ پر پہنچا۔ ان لوگوں کی راہ پر پہنچا کہ جن پر تو نے بڑے بڑے انعام و اکرام کئے اور نہ ان کی جن پر غصہ ہوا اور نہ گمراہوں کی۔ اس کے بعد کوئی سورت قرآنی بغرض ربط مخلوق بخالق پڑھ کر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہہ کر رکوع میں جاتا ہے اور اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ سبحان ربی العظیم۔ میرا ! مالک مربی اللہ بڑی بزرگی والا ہے (کم سے کم تین دفعہ) پھر سر اٹھاتے ہوئے اللہ کی عام قدرت کا اقرار کرتا ہے سمع اللہ لمن حمدہ۔ یعنی اللہ سنتا" ہے ان کی پکار کو جو اس کی تعریف کرتے ہیں۔ پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی اظہار ہے کہ ربنا لک الحمد۔ اے # ہمارے مولا ! تو ہی سب تعریفوں کا مالک ہے پھر اللّٰہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) کہتا ہوا سجدہ میں جاتا ہے وہاں تو خوب ہی بن آتی ہے من مانی دعائیں جی میں آئی عرضیں کرتا ہے سبحان ربی الاعلیٰ (پاک ہے رب میرا سب سے بلند) (کم سے کم تین دفعہ) کہہ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سر اٹھاتا ہے۔۔ پھر دوسرا سجدہ بھی اسی کیفیت سے کرتا ہے یہاں پہنچ کر ایک رکعت ختم ہوئی۔ ( دونوں سجدوں کے درمیان میں دعا پڑھنا لازمی رسول اللہﷺ سے مرفوع ہے۔ (١) ربی اغفرلی۔ (٢) ربی اغفرلی ورحمنی… الخ) اسی کیفیت کی دو تین چار جیسا وقت ہو پڑھتا ہے۔ سب سے اخیر بیٹھ کر اپنے مالک کی تعریف کے کلمات (التحیات للہ والصلوت والطیبت السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما برکت علی ابراھیم وعلی ال ابراھیم انک حمید مجید۔) کہہ کر اور اپنے پیرو مرشد سچے رسول کے حق میں نیک دعا کر کے اور اپنے حق میں بھی کچھ کہہ سن کر نماز سے فارغ ہوتا ہے پس یہ ہے وہ نماز اور وہ عبادت جس کو ایک ناخواندہ (مگر خوندوں کے معلم) جنگلی ملک کے رہنے والے (فداہ روحی) نے بالہام الہٰی تجویز کیا ہے۔ کیا اس میں کوئی کلمہ بھی ایسا ہے کہ جس میں کعبہ کی مدح یا تعظیم ہو۔ پھر اس نماز کو بھی ہمارے نافہم مخالف شرک اور بت پرستی کہیں گے تو اس کے جواب میں ہم سے یہی سنیں گے پس تنگ نہ کرنا صح ناداں مجھے اتنا یا چل کے دکھا دے دہن ایسا کمر ایسی بعد اس کے ہم اپنے مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ اگر اسلام کو کعبہ پرستی منظور ہوتی اور شرک اور بت پرستی کا رواج مدنظر ہوتا تو کیا وجہ ہے کہ ساری نماز میں کعبہ کا ذکر تک بھی نہیں۔ نہ اس کو خطاب ہے۔ نہ اس سے استمداد۔ نہ اس کا نام۔ پھر کعبہ پرستی ہے تو کہاں ہے؟ میں نہیں جانتا کہ کوئی منصف مزاج اس معروضہ تقریر پر غور کر کے اسلام پر کعبہ پرستی کا الزام لگائیں۔ رہا یہ سوال کہ نماز میں تو بیشک شرک کی بو تک نہیں۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم آیا ہے۔ انسان کو اس امر میں مختار کیوں نہیں کیا گیا کہ جس طرف منہ کر کے چاہتا اپنے مالک کی عبادت کرتا۔ سو اس کا جواب بعد ایک تمہید کے ہم دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے :۔ ہمیشہ قاعدہ ہے کہ ایک امر مقصود اصلی کے ساتھ کوئی مقصود تبعی بھی ہوا کرتا ہے مثلاً علم کا پڑھنا مقصود اصلی ہے تو حروف ابجد کا سیکھنا غیر اصلی لازم ہے گو بعد حصول علم حروف ابجد کا خیال تک بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح دفع دشمن کے لئے تلوار بندوق کا اٹھانا لازم ہوجاتا ہے حالانکہ ان کے اٹھانے سے بجز تحمل بوجھ کوئی فائدہ نہیں مگر بایں لحاظ کہ یہ بوجھ ایک ضروری کام (دفع دشمن) کے لئے ذریعہ ہے یہی عمدہ اور احسن ہوجاتا ہے اس تقریر سے یہ بھی ثابت ہوا کہ جو امر کسی دوسرے امر کا ذریعہ ہوا کرتا ہے اس کا حسن و قبح اصل ذی ذریعہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ یہی تلوار کا اٹھانا جو بلحاظ اس امر کے کہ یہ تلوار دفع دشمن کے لئے ایک ذریعہ ہے احسن اور عمدہ ہے اور اس لحاظ سے کہ کسی بیکس مظلوم پر چلائی جائے۔ تو قبیح ہوتا ہے۔ ہاں اس امر کی پہچان بعض دفعہ مشکل ہوجاتی ہے کہ مقصود اصلی کیا ہے اور تبعی کیا۔ سو اس کے لئے عام قاعدہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو امر ایسا ہو کہ اس کے حصول کے بعد دوسرے کے لئے تردد کرنا باقی رہے۔ اور مقصود سے فارغ البالی نہ ہو۔ تو وہ مقصود اصلی نہیں اور جس کے حصول کے بعد دوسرے کی تلاش نہ رہے تو وہ امر مقصود اصلی ہوگا۔ مثلاً دوا کا بنانا اور گھوٹنا ایک ایسا امر ہے کہ اس کے حصول پر قناعت نہیں کی جاسکتی۔ جب تک کہ بیمار کو بھی شفا نہ ہولے۔ ہاں اگر بغیر دوا نوشی کے مرض سے عافیت ہوجائے تو دوا کا مطلق خیال بھی نہیں ہوتا۔ ہماری اس تقریر سے یہ امر بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مقصود اصلی کسی حال میں متروک اور مفروغ عنہ نہیں ہوسکتا۔ پس اب ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ تعیین جہت کو اسلام نے کوئی مقصود اصلی قرار دیا ہے یا تبعی۔ بعض مواقع پر اس حکم کا ساقط ہوجانا صاف دلیل ہے کہ یہ کوئی امر اصلی نہیں۔ مثلاً جنگ کی حالت میں بشدت خوف جدھر رخ ہو نماز پڑھتے جانا خواہ کعبہ کی طرف پیٹھ بھی ہو۔ اس امر کو ثابت کررہا ہے کہ کعبہ کی طرف توجہ کرنا مقصود اصلی نہیں۔ بلکہ صرف اس امر کے لئے ہے کہ مسلمانوں میں جیسا کہ معنوی اتحاد ہے صوری موافقت بھی حاصل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے جو اختیار دینے کی صورت میں متصور نہ تھا کیونکہ جب ہر ایک کو اختیار ملتا اور اس بات کا مجاز ہوتا کہ دوسرے کے منہ کی طرف منہ کرے یا پیٹھ ایک مشرق کو رخ کرے تو دوسرا مغرب کو۔ تیسرا جنوب کو چوتھا شمال کو۔ یہ فائدہ جو یک جہتی سے حاصل ہے نہ ہوتا۔ پس یہی وجہ اس کے تبعی مقصود ہونے کی ہے۔ یہ تقریر بالخصوص اس وقت بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ نماز کے معانی اور مطالب ذہن نشین کر کہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں تو کسی جہت یا کعبہ کا نام تک بھی نہیں پس اگر یہ مقصود اصلی ہوتا تو اصل عبادت کے طریق اور اس کے الفاظ میں اس کا ذکر ہوتا کیونکہ بغیر مقصود کسی کام کا کرنا کون نہیں جانتا کہ علاوہ لغو ہونے کے تضیع اوقات اور بیہودہ پن ہے۔ پس ہماری ہمسایہ قوم آریہ اور عیسائی وغیرہ اسلام کے مخالف ہماری اس تقریر پر غور کریں اور نتیجہ سے ہمیں اطلاع دیں اگر کچھ شبہ ہو تو تمام قرآن میں تلاش کر کے کوئی آیت اس مضمون کی نکالیں جس سے ثابت ہو کہ نماز میں کعبہ کی پرستش ہے۔ نہ ملنے پر ہم آپ سے صرف ایک چیز چاہتے ہیں۔ جو نہایت آسان ہے گو کسی مخالف حق کے حق میں مشکل اور گراں سے گراں ہے وہ وہی ہے جس کا پیارا نام ” انصاف“ ہے جو انسان کو ہر ایک جگہ عزت دلاتا ہے اور عزاز سے یاد کراتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ کعبہ کی جہت کیوں مقرر ہوئی۔ اور طرف کیوں نہ ہوگئی؟ مانا کہ نماز میں شرک نہیں اور تعین جہت شرک ہے لیکن اتنا تو ہے کہ اور اطراف بھی اس کے مساوی ہیں آخر اس میں کیا ترجیح ہے جو اس کو اختیار کیا گیا۔ کیا ترجیح بلا مرحج محال نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جہت میں سب سے بڑھ کر ایک ایسی ترجیح پائی جاتی ہے جو ہم خرما وہم ثواب کی مصداق ہے۔ یعنی یہ کعبہ ایک بڑے نامور سید الموحدین اس نیک بندے کا بنایا ہوا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور توحید کے اختیار۔ کرنے کی وجہ سے اپنے بیگانے سے وہ تکالیف دیکھی تھیں جن کا نمونہ آج کل تمام دنیا میں نہ مل سکے پس ایسے شخص کی یاد گار دل میں قائم رکہنے کی غرض سے کعبہ مقرر کیا گیا۔ تاکہ اور لوگوں کو بھی اخلاص مندی اور توحید کا اس سے سبق حاصل ہو۔ اسی حکمت سے حضور اقدس (فداہ روحی) کا دل تڑپتا تھا کہ میں کعبہ ابراہیمی کی طرف نماز پڑھوں ورنہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کعبہ بھی مثل اور جہات کے ایک جہت ہے۔ ہاں کوئی وصف ہے تو یہ ہے بگفتا من گلے ناچیز بودم ولیکن مدتے باگل نشستم رہا اعتراض نسخ احکام کے متعلق سو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ یعنی حکم سابق کا اٹھا دینا یہ دو طرح پر ہے۔ ایک تو جس طرح سے حکام زمانہ کوئی قانون بعد ترویج بدلتے ہیں جس کی بابت پہلی ترتیب کے وقت ان کو علم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا خرابی ہوگی جس کے سبب سے اس میں کچھ تغیر آئے گا۔ دوسری قسم طبیب کی تبدیلی نسخہ جات کی طرح ہے کہ رفتہ رفتہ بتدریج طبیعت کو درستی پر لاتا ہے۔ منضج دے کر مسہل تجویز کرتا ہے ان دو قسموں میں سے قسم اول تو بیشک حاکم کی لاعلمی پر دلالت کرتا ہے۔ مگر قسم دوم بجائے لاعلمی کے کمال بتلاتا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اہل اسلام کون سے نسخ کے قائل ہیں؟ قسم اوّل کے۔ حاشا وکلّا (ہرگز نہیں) ان کی پاک کتاب کی تعلیم ہے یَعْلَمْ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ اور اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ۔ بھلا اس صریح تعلیم کے خلاف وہ کیونکر کہہ سکتے ہیں اور اگر کہیں بھی تو یہ اعتراض ان پر ہوگا۔ نہ کہ اسلام پر۔ قسم دوم کے البتہ جمہور اہل اسلام معترف ہیں کتب اصول میں لکھا ہے کہ :۔ النسخ ھو بیان لمدۃ الحکم المطلق الذی کان معلوماً عند اللّٰہ الا انہ اطلق فصار ظاھرہ البقأ فی حق البشر فکان تبدیلا فی حقناببانا فی حق صاحب الشرع (نور الا نواز ص ٢٠٨) نسخ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے جو کسی حکم بلا قید میں مراد ہوتی ہے اور اللہ کو معلوم ہے کہ یہ حکم فلاں وقت تک رکھوں گا مگر بظاہر اس کو غیر مفید فرما دیتا ہے جس سے لوگ اس کو دوامی سمجھ جاتے ہیں پس اسی وجہ سے وہ ہمارے خیال میں پہلے حکم کی تبدیلی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صرف ایک مدت کا اظہار ہوتا ہے “ پسؔ ایسے نسخ سے نہ تو اللہ کے علم میں کوئی نقصان آتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اعتراض ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ابتدائے اصلاح قوم میں مصلحان کو کیا کیا دقتیں پیش آیا کرتی ہیں کبھی وہ مشکل سے مشکل کام بھی کر گذرتے ہیں اور کروا لیتے ہیں اور کبھی آسان سے آسان بھی بوجہ کسی مصلحت اور حکمت کے ان سے نہیں ہوسکتے ایک شخص کے خیالات کا اندازہ کرنا اور اس کی طبیعت مدت سے بگڑی ہوئی کو اصلاح پر لانا ہاتھ میں انگار لینا ہے تو پھر ایک قوم کی قوم کو یکدم پلٹا دلانے میں کیا کیا دقتیں نہ پیش آتی ہوں گی۔ سچ ہے اور بالکل سچ ہے پانی میں ہے آگ کا لگانا دشوار بہتے دریا کا پھیر لانا دشوار دشوار تو ہے مگر نہ اتنا جتنا بگڑی ہوئی قوم کا بنانا دشوار ایک حدیث میں جو امام مسلم نے نقل کی ہے مذکور ہے کہ آپ نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کے مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن سے زائد رکھنے سے منع کردیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی ایسا ہی شراب کے برتنوں میں بھی کھانا پینا منع کیا تھا۔ مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی اس حدیث سے ہمارے بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسلامی نسخ بے علمی پر مبنی نہیں بلکہ کمال دور اندیشی کی خبر دیتا ہے۔ ہمارے خیال میں ایسے مصلح اور رفارمر کی کسی پالیسی (حکمت عملی) یا دوسرے لفظوں میں نسخ پر کوئی اعتراض کرنا گویا ثابت کرنا ہے کہ اصول رفارمری سے ناواقف ہیں۔ سچ ہے سخن شناس نئی دلبر اخطا اینجاست۔ اسلامی نسخ جس قدر کہ ہے اس قسم کا ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ بعض مفسرین نسخ بتلانے میں ذرا جلدی بھی کر جاتے ہیں سو جس نے آیات منسوخہ کی صحیح تعداد اور ان کے متعلق محققانہ بحث دیکھنی ہو وہ رسالہ فوز الکبیر مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی قدس سرہٗ کا مطالعہ کرے تمام تلاش میں شائد کوئی آیت منسوخ ملے گی۔ واللہ اعلم منہ اس لفظ میں استثناء باب ١٨۔ اور اعمال باب ٣ کی طرف اشارہ ہے۔ ١٢ منہ{ اس امر کا خطرہ نہ کرو کہ جہاں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) تم کو طعن مطعن دیں گے اگر دیں تو کچھ پرواہ نہیں اس لئے کہ جو لوگ کتاب کے جاننے والے ہیں خوب جانتے ہیں کہ یہ (حکم) واقعی ان کے (اور تمہارے سب کے) مالک کی طرف سے ہے کیونکہ وہ بشہادت تورات ونیز بقرائن خارجہ اسے خوب سمجھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا نبی اور حضرت موسیٰ کی مانند رسول مستقل ہے۔ پس جو کچھ وہ حکم کرے گا ممکن نہیں کہ غلط اور باطل ہوگوہ بوجہ دنیا سازی مانتے نہیں سو یادرکھیں کہ اللہ ان کے کاموں سے بے خبر نہیں ضد اور تعصب میں تو یہاں تک بڑھے ہوئے ہیں کہ اگر تو ان کے پاس ہر طرح کے نشان بھی لاوے گا تو جب بھی تیرے قبلہ ابراہیمی کی طرف نماز نہ پڑھیں گے اور نہ کسی طرح تو ان کے قبلہ کو مانے گا ان کی یہ مخالفت تیری حقانیت میں خلل انداز نہیں ہوسکتی پہلے وہ آپس میں تو فیصلہ کرلیں اس لئے کہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے۔ یہود نصاریٰ سے مخالف اور نصاریٰ یہود سے۔ حالانکہ دونوں گروہ تورات کو مانتے ہیں پھر تجھ سے بھی الجھنے کی کیا وجہ کوئی دلیل ان کے پاس ہے ؟ کہ انہی کے قبلہ کی طرف نماز پڑھی جاوے ہاں نفسانی خواہش تو بے شک ہے اور یاد رکھ کہ اگر تو بفرض محال باوجود جان لینے ان کی اندرونی حالت کے ان کی خواہش پر چلا تو بے شک تو بھی اسی وقت بے انصاف ثابت ہوگا اصل میں یہ ضد جہلاء اور نیم، ملّائوں میں زیادہ ہے ورنہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب تورات کی سمجھ دی ہے وہ تو اس رسول کو ایسا سچا پہچانیں جیسا اپنے بیٹوں کو جب ہی تو ماننے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ ہاں ایک فرقہ نیم ملّائوں کا ان میں سے بے شک دیدہ دانستہ حق بات چھپاتے ہیں اور اس کو شش میں ہیں کہ کسی طرح حق ظاہر نہ ہونے پائے مگر تو سن رکھ کہ حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہے پس تو ان کی باتوں سے کسی طرح کا شک نہ کی جیو ان کی مخالفت سے کیا ہوتا ہے پڑے مخالفت کریں اللہ تعالیٰ نے اس دین کو ضرور ہی پھیلانا ہے۔