سورة التوبہ - آیت 38

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مومنو ! تمہیں کیا ہوا ، جب تمہیں کہا جاتا ہے ، کہ اللہ کی راہ میں باہر نکلو ، تو تم زمین کی طرف گرے پڑتے ہو ، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر حیات دنیا پر راضی ہوئے ہو ؟ سو حیات دنیا کی پونجی آخرت کے مقابلہ میں حقیر ہے ۔

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(38۔66) اس لئے تم سے بار بار کہا جاتا ہے اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کے حکموں کی دل و جان سے اطاعت کیا کرو تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں لڑنے کو نکلو تو تم ایسے بزدل ہوجاتے ہو کہ گویا زمین سے چمٹ جاتے ہو ایسے کہ تمہارا ہلنا ہی قطب از جانمے جنبد اگر جنبد جہاں جنبد کا مصداق ہوجاتا ہے کیا تم آخرت کے عوض دنیا کی زندگی پر راضی ہوچکے ہو اور اسی پر قانع ہوگئے ہو اگر تمہارا ایسا ہی خیال ہے تو سخت زیاں کار ہو کیونکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے (شان نزول (یایھا الذین آمنوا) اسلام نے جس قسم کی حکومت قائم کی تھی اس کے مطابق یہ ضروری تھا کہ ہر ایک مسلمان ہر وقت شمشیر بکف رہے کیونکہ کوئی باقاعدہ فوج کی تعداد اتنی نہ ہوتی تھی کہ دشمن کے مقابلہ کو کافی ہوسکے بلکہ جس وقت ضرورت ہوتی امیر المومنین کی طرف سے ایک منادی پھر جاتا کہ جنگ کو تیار ہوجائو چونکہ اس قسم کی حکومت کا نباہ اجتماع کے بغیر ممکن نہ تھا اس لئے اس امر کی تائید کرنے کو یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں اسلامی حکومت کی طرز پر اس وقت کوئی سلطنت موجود نہیں بجز حکومت حجاز و نجد کے سپاہ نظام بہت کم باقی رعیت کے بالغ سب فوج۔ ١٢ منہ) جس کا اندازہ لگانا اور کسی قسم کی نسبت ان میں بتلانا ہی فضول ہے سنو ! اگر تم بوقت ضرورت میدان جنگ میں نہ نکلے تو اللہ تعالیٰ تم کو دشمنوں کی ماتحتی سے دکھ کی مار دے گا اور تمہارے بدلے کوئی دوسری قوم اپنے دین کی تائید کے لئے پیدا کرے گا جو تمہاری طرح نالائق نہ ہوگی اور تم اس غفلت اور سستی میں اس کا کچھ نہ بگاڑو گے بلکہ جو کچھ بگاڑو گے اس لئے کہ تم عاجز ہو اور اللہ اپنے سب کاموں پر قدرت تامہ رکھتا ہے اصل پوچھو تو تمہاری مدد اور نصرت سے ہوتا ہی کیا ہے یہ تو تمہاری ہی سعادت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنے دین کی کچھ خدمت لے کیا تم نے شیخ سعدی مرحوم کا قول نہیں سنا منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمے کنی منت ازوبداں کہ بخدمت گذاشتت ورنہ اگر تم رسول کی اور دین اسلام کی مدد کرو گے تو کیا بگڑ جائے گا اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی بے سروسامانی کے وقت میں مدد کی تھی کہ کوئی کیا کرے گا جب کافروں نے اس کو ایسے حال میں کہ تمام ملک مخالف تھا صرف ایک آدمی کے ساتھ مکہ سے نکال دیا تھا یعنی وہ وقت تھا کہ جب وہ دونوں خادم و مخدوم مکہ سے باہر غار ثور میں چھپے ہوئے تھے جس وقت وہ پیغمبر اپنے ساتھی ابوبکر صدیق اکبر (رض) سے تقاضائے بشریت دیکھ کر کہہ رہا تھا کہ کچھ فکر مت کر کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے جس نے ہمیں گھروں سے نکلنے کا ارشاد فرمایا وہ ہم کو کافروں کے ہاتھوں ضائع نہ کرے گا پس اتنا کہنے کی دیر تھی کہ اللہ نے اپنی طرف سے اس کے صدیق پر تسلی نازل کی اور ایک ایسی فوج غائبانہ جس کو تم نے نہ دیکھا بھیج کر رسول کی مدد کی اور کافروں کا بول پست کردیا اور اللہ کا بول ہمیشہ بالا ہے کیونکہ اس کے مقابل ہو تو کون ہو سب مخلوق عاجز ہے اور اللہ سب پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے گو وہ سب کچھ اکیلا ہی کرسکتا ہے مگر وہ تمہیں سعادت سے بہرہ اندوز کرنے کو حکم دیتا ہے کہ ہلکے پھلکے اور بوجھل بھاری یعنی پورے مسلح ہو تو یا پورے نہ ہو تو بھی۔ غرض بہرحال جہاد کو نکلو اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو یہ تعمیل ارشاد تمہارے لئے سب کاموں سے بہتر ہے اگر تم کو زمانہ کے واقعات کا علم ہے تو سمجھو اور جب موقع مناسب لوہے کا قلم بر تو یعنی تلوار سے کام لو کیونکہ دنیا میں وہی قوم عزت پاتی ہے جو اپنے دشمنوں کی ایذائیں اور تکلیفیں لوہے سے دور کرتے ہیں مگر بعض ضعیف القلب اتنا سن سنا کر ہی تیرے ساتھ نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان کو فائدہ جلدی پہنچنا ہوتا اور سفر بھی متوسط یعنی موجب تکلیف نہ ہوتا تو فوراً تیرے پیچھے ہو لیتے لیکن چونکہ اس جنگ حنین کی مسافت ان پر بوجہ دوری کے شاق ہو رہی ہے اسی لئے جی چراتے ہیں اور اگر ان سے پوچھو گے تو صاف اللہ کے نام کی قسمیں کھا جائیں گے کہ اگر ہم سے ہوسکتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے واللہ باللہ ثم تاللہ ہم میں طاقت نہیں نہ اسباب مہیا ہے بلکہ ہم لڑنا بھی نہیں جانتے ان قسموں سے اور اپنے حق میں تباہی لائیں گے کیونکہ اس سے نہ تو مسلمانوں کو یقین ہوتا ہے اور اللہ تو جانتا ہی ہے کہ وہ کذاب اور فریبی ہیں۔ اصل میں یہ لوگ دین کے دشمن ہیں مگر ظاہری وضع داری ان کو ایسی صریح دشمنی سے مانع ہوتی ہے اس لئے اگر کوئی عداوت کا بھی موقع ہوتا ہے تو کسی نہ کسی آڑ میں کرتے ہیں مثلاً موقع جہاد سے پیچھے رہنے کو تجھ سے (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رخصت اور اجازت مانگ لیتے ہیں تو کہ چونکہ غیب دان نہیں ان کے دائوں میں آجاتا ہے ایسے سہو اور زلات اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے آئندہ کو ان کے دھوکوں میں نہ پھنسنا کیوں تو نے اذن دیا تھا کیوں خاموش نہ رہا جب تک تک کہ ان میں سے راست گو یعنی جو واقعی معذور تھے تجھے معلوم ہوجاتے اور جھوٹوں کو بھی تو جان لیتا سنو ! جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن کی زندگی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ لوگ اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے سے ہٹ رہنے میں تجھ سے کبھی اذن نہ مانیں گے جیسی ان منافقوں کی عادت ہے یہ سب کچھ انتظام عالم کے طور پر تیری آگاہی کے لئے ہے تاکہ تو ان کے حال پر مطلع ہو اور اللہ متقیوں اور غیر متقیوں سب کو جانتا ہے ایسا کہ کوئی بھی اس سے پوشیدہ نہیں جب ہی تو وہ تجھ کو بتلاتا ہے کہ جو لوگ اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان نہیں رکھتے اور ان کے دل متردد ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی اپنے شبہات میں حیران ہیں ایسے ہی لوگ پیچھے رہنے میں تجھ سے اذن چاہتے ہیں اور بہانے بناتے ہیں کہ ہم نے تیاری نہیں کی تھی کون نہیں جانتا کہ اگر ان کو لڑائی کے لئے نکلنے کا خیال ہوتا تو اس کی تیاری بھی نہ کرتے لیکن ان کی بد اعمالی سے اللہ تعالیٰ نے ان سے توفیق مسدود کردی ہے اور ان کا ایک جگہ سے ہلنا بھی پسند نہیں کیا پس ان کو سست کردیا اور ان کو ایسی سوجھی گویا ان کو کہا گیا کہ پیچھے بیٹھنے والوں یعنی کوڑھی وغیرہ معذوروں سے مل کر بیٹھے رہو حق یہ ہے کہ اگر یہ خبیث تم میں مل کر چلتے تو بھی تم کو نقصان ہی پہنچاتے اور تم میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے کہ کسی طرح ان میں پھوٹ پڑے اور ان کا جتھا ٹوٹے اور ابھی تک بھی ان کے فرستادہ جاسوس تم میں موجود ہیں جو تمہاری مجلس میں صرف انہیں کی خاطر باتیں سنتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے خوب ہی سزا دے گا یہ تو ایسے شریر ہیں کہ پہلے بھی کئی دفعہ فتنہ عظیم اٹھا چکے ہیں اور تیرے سامنے کئی باتیں الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں اور دل میں مخالفت چھپا کر بظاہر دوستی کا دم بھرتے رہے اور لوگوں کو ہیرو پھیر بتلا رہے ہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے سچا وعدہ آ پہنچا اور مسلمانوں کی فتح ہوئی اور ان کی ناخوشی ہی میں اللہ کا حکم ظاہر ہوگیا بعض ان دورخے لوگوں میں ایسے بھلے مانس بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے پیچھے رہ جانے دیجئے اور مجھ کو جنگ کی مصیت میں نہ ڈالئے مسلمانو ! سنو وہ خود مصیبت میں پڑے ہیں ایسے کہ جنگ کی تکلیف سے رہائی ہو بھی جاتی اور ہوتی بھی تو باعزاز و اکرام ہوتی مگر جس مصیبت میں وہ گرے ہیں اس کا نام جہنم ہے اور جہنم کل کافروں کو ایسے گھیرے ہوئے ہے کہ ایک بھی اس میں سے نکل کر باہر نہیں آسکتا یہ ایسے شریر ہیں کہ تجھ سے ان کو اس درجہ عداوت ہے کہ اگر تجھ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کچھ بھلائی پہنچتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے کہ ہائے ان کو یہ فائدہ کیوں پہنچا اور اگر بمنشائے الٰہی تجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی دانائی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میاں ! کسی بھلے آدمی کی تو سنتے نہیں ہماری مانتے تو یہ تکلیف ہی کیوں ہوتی ہم تو اسی لئے پہلے ہی سے الگ تھلگ ہو بیٹھے تھے شیخی بھگارتے جاتے ہیں اور خوشی خوشی مجلس سے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور جا کر آپس میں خوب بغلیں بجاتے ہیں تو اے نبی ان سے کہہ کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حق میں مقدر کیا وہی ہم کو پہنچے گا اچھا ہو یا برے ہر چہ رضائے مولیٰ از ہمہ اولیٰ وہ ہمارا مالک ہے جس حال میں چاہے رکھے اور ہمیں اس کا حکم ہے کہ ایماندار اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں ایسا ہی کرتے ہیں اس کرنے پر اگر یہ لوگ تیری تکلیف پر راضی ہوں تو ان سے کہہ کہ جنگ کی صورت میں ہم دونوں طرح سے راضی ہیں فتح ہو تو قومی اعزاز ہے شہادت ہو تو شخصی ماکرام غرض گر لیا مار تو بن آئی اور گئے مارے شہادت پائی پس تم جو ہماری تکلیف اور شہادت کے منتظر ہو سو درحقیقت تم اصل میں ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک کی انتظاری کرتے ہو کیونکہ ہم تو مرنے کو اپنے حق میں جینے کے بلکہ جینے سے بھی اچھا جانتے ہیں کیا تم نے عارف اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا ناں اگر تو مید ہی نانت دہند جاں اگر تو مید ہی جانت دہند سو تم اسی انتظار میں رہو ہم تمہارے حق میں اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہاں سے بغیر واسطہ ہمارے تم پر کوئی عذاب نازل کرے یا ہمارے ہی ہاتھوں سے تمہاری گت بنوائے غرض جو اس کی مشیت اور تقدیر میں تمہارے لئے مقرر اور مناسب ہو وہ ہو اس میں تو شک نہیں کہ تم ہدایت سے بے نصیب ہو پس تم اپنے مدعا کی انتظاری میں لگے رہو ہم بھی تمہارے ساتھ اپنے مدعا کے منتظر ہیں دیدہ بائد فتح اور کامیابی کس کو ہوتی ہے لیکن یاد رکھو کہ والعاقبۃ للمتقین تو ان سے کہہ کہ تمہاری حالت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے تمہاری بدنیتی کسی سے مخفی نہیں پس تم خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو یا ناخوشی سے ہرگز تم سے قبول نہ ہوگا کیونکہ تم بدکاروں کی منڈلی اور چنڈال چوکڑی ہو تمہاری نیت کی اصلاح جب تک نہ ہوگی قبولیت بھی نہ ہوگی یہی وجہ ہے کہ بےدینوں کی خیرات قبول نہیں ہوتی اور ان کی خیرات قبول نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور رسول سے منکر ہیں اس لئے جو کچھ دیتے ہیں محض دکھاوے کا ہوتا ہے اور نماز جیسا پاک فعل جو دل کی توجہ تام سے ہونا چاہئے (حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری حمد کی ہے جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے میری تعریف کی ہے اور جب اھدنا کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے جو کچھ میرے بندہ نے طلب کیا ہے میں اس کو دوں گا غرض ہر ہر لفظ پر رب العالمین جواب دیتا ہے صوفیائے کرام رضوان اللہ اجمعین نے لکھا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے کلمات طیبات کو ایسی توجہ سے پڑھنا چاہئے کہ قائل ہر ایک لفظ پر رب العالمین کے جواب کو گویا سنتا ہے صفائی قلب کے لئے اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ اللھم ارزقنی۔ ١٢ منہ) یہ لوگ جب پڑھتے ہیں تو سست اور دل سے غافل ہو کر پڑھتے ہیں نہ کلمات طیبات کے معانی سوچتے ہیں نہ رب العالمین کے جواب پر جو ہر ہر لفظ کی اجابت پر ملتا ہے غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو خرچتے ہیں بددلی سے خرچتے ہیں اس لئے توقیت بھی نہیں پاتا پس جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی یہ عزت اور توقیر ہے کہ ان کے صدقات اور عبادات بھی قبول نہیں ہوتے تو تو ان کے مال اور اولاد کی کثرت سے حیران نہ ہو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کو اس مال اور اولاد کی وجہ سے دنیا میں بھی عذاب کرے ہر وقت مال اور اولاد کی کفر ہی میں ڈوبے رہتے ہیں کبھی کوئی نقصان ہے کبھی کوئی کبھی بیٹے کی وجہ سے تکلیف میں ہیں تو کبھی داماد کی طرف سے یہاں تک کہ ان کی اجل آپہنچے اور ان کی روحیں کفر کی حالت میں ان کے جسموں سے نکلیں ظالم ایسے مکار ہیں کہ تمہاری مخالفت پر گویا تلے بیٹھے ہیں اور اللہ کی قسمیں بھی کھاتے ہیں کہ دل سے تمہارے ساتھ ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں بلکہ وہ محض اپنی کمزور طبیعت کی وجہ سے ڈرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے ساتھی نہ بنیں گے تو تکلیف پہنچے گی اور مسلمان یا مسلمانوں پر حملہ آور کفار ہی ہم کو پیس ڈالیں گے ورنہ اگر ان کو کوئی پناہ کی جگہ مل جاتی یا کسی پہاڑ میں کوئی غار یا کہیں کسی مکان میں چھپنے کی جگہ پاتے تو فوراً اس کی طرف بھاگے جاتے اب جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں تو صرف اسی لئے کہ ان کو کوئی جگہ اپنی زبان درازی کرنے کی نہیں ملتی اس لئے جلے بلے منہ سے کلمہ پڑھتے ہیں اور کبھی کبھی دل کے بخار بھی نکال لیتے ہیں بعض لوگ ان میں سے ایسے تیرے عیب جو ہیں کہ جب اپنی عیب جوئی میں نامراد رہتے ہیں تو صدقات کی تقسیم کرتے میں تجھ پر طعن کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں تیری تقسیم جو اصل ایمان داری سے ہوتی ہے غلط ہے وہ اس مال کا مستحق اپنے آپ کو زیادہ جانتے ہیں پھر اگر ان کو بھی کچھ مل جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر نہیں ملتا تو فوراً ناراض ہو کر بگڑ بیٹھتے ہیں کیونکہ مال کے غلام عبدالدرہم والدنانیر ہیں (شان نزول (ومنہم من یلمزک) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ کچھ تقسیم کی تو چونکہ اس میں ” رموز مملکت خویش خسرواں و انند“ کی حکمت ملحوظ تھی بعض کم فہم منافقوں کی سمجھ میں نہ آئی تو اعتراض کرنے لگے کہ اعدل یا محمد (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مساوی تقسیم کر) آپ نے فرمایا اگر میں عدل نہیں کرتا تو کون کرتا ہے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ) اور اگر یہ لوگ اللہ کی تقدیر اور اللہ کے حکم سے رسول کے دئیے ہوئے پر راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہم کو کافی ہے بہت جلد اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول اس کے حکم سے ہم کو دیں گے اور اگر نہ بھی دیا تو بھی بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب اور امیدوار ہیں تو ان کا کہنا اور سمجھنا ان کے حق میں بہتر ہوتا اور اگر غور کریں تو صدقات میں ان کا حق بھی کیا ہے جب کہ صدقات کا مال صرف فقیروں اور محتاجوں کے لئے ہے اور ان کے لئے جو اس کے جمع کرانے پر مقرر ہیں اور اپنا وقت لگاتے ہیں وہ اپنی اجرت اس میں سے…لے سکتے ہیں اور نیز ان کے لئے ہے جن کے دلوں کو اسلام سے مانوس رکھنا ہو یعنی جو لوگ دل سے تو اسلام کو حق جانتے ہیں مگر حاجات دنیاوی سے کفار میں رہنے پر مجبور ہیں ان کی امداد بھی مال زکوٰۃ سے کی جائے اور غلاموں کی آزادی میں۔ غلاموں کی آزادی دو طرح سے ہوتی ہے مکاتب غلام کو مالی امداد دی جائے کہ وہ مالک کو ادا کر کے بری ہو اور دوسرے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جائے اور نیز قرض داروں کے لئے ہے جو جائز قرض کے نیچے دبے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہے یعنی سامان جہاد وغیرہ مہیا کرنے بلکہ ہر نیک کام میں اور مسافروں کے لئے جو بوجہ ناداری کے وطن مالوف تک نہ جاسکتے ہوں گو وہ اپنے گھروں میں مال کثرز کے مالک ہوں یہ حقوق اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اور اللہ بڑے علم والا بڑی حکمت والا ہے جب یہ منافق کسی قسم سے بھی نہیں تو پھر کیوں امید اس کی رکھتے ہیں اور نہ ملنے پر ناخوش ہوتے ہیں لو اور سنو ! بعض ان بےدینوں میں ایسے بھی ہیں کہ اللہ کے نبی کو ایذا دیتے ہیی اور اپنی مجالس میں ناحق برائی سے یاد کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کو سمجھاتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ کو خبر ہوگئی تو ناراض ہوں گے تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ تو کان ہے جو کچھ اسے کہہ دو چاہے جھوٹ ہی ہو فوراً مان لیتا ہے اگر ہماری شکایت کسی نے پہنچا دی تو ہم اپنی معذرت کر کے اس شکائت کو دھو ڈالیں گے بات ہی کیا ہے تو اے رسول ان سے کہہ کہ بے شک وہ رسول کان تو ہے مگر تمہارے حق میں خیر کا کان ہے بھلے مانس شریفوں کی طرح تمہارے منہ نہیں آتا یہ نہ سمجھو کہ تم جو کچھ کہتے ہو یقین کرلیتا ہے نہیں بلکہ کسی بتلائی ہوئی بات پر ایمان رکھتا ہے اور مومنوں کی بات پر یقین کرتا ہے اور جو تم میں سے پکے ایماندار ہیں ان کے لئے رحمت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کر کے حصہ وافر پاتے ہیں مطلب یہ کہ بے شک رسول اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارے کام اور گفتگو جو پوشیدہ پردوں میں کیا کرتے ہو خود جانتا ہو البتہ بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے یا نیک بخت مسلمانوں کی خبر دینے سے اسے معلوم ہوسکتے ہیں تاہم جو کچھ وہ سنتا ہے تمہارے حق میں بہتر ہے کہ تم زیادہ شرارتوں پر آمادہ ہو کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دکھ کی مار ہے یہ کم بخت لوگ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں اس غرض سے کھاتے ہیں کہ تمہیں راضی کریں حالانکہ اللہ اور اس کا رسول راضی کئے جانے کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ تمہارے راضی ہونے سے تو ان کو بجز اس کے اور کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا کہ تم ان کے حق میں زبان طعن بند کرلو اور بس اگر ایمان دار ہیں تو اللہ تعالیٰ کو راضی کریں مگر ایمان کہاں کیا یہ جو شرارتیں کرتے ہیں ان کو معلوم نہیں جو کوئی اللہ اور رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے دوزخ کی آگ تیار ہے اس میں ہمیشہ رہے گا یہی بڑی ذلت اور رسوائی ہے کیا ہوا اگر دنیا میں چند جہلا کے سامنے یہ بے ایمان بھی معزز بنتے میں مگر آخر بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی بدعمل منافق ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کوئی سورت ایسی نازل نہ ہو کہ ان کے دلوں کے خیالات ان پر ظاہر کرے غرض ان کی یہ ہے کہ ہم جو چاہیں سو کریں ہماری خرابی کا اظہار اور مقابلہ نہ کیا جاوے اے نبی تو ان سے کہہ مخول کئے جائو جس امر سے تم خوف کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے ضرور ہی ظاہر کرے گا اس کے اظہار کا طریقہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے رسول کو بتا دے گا پھر رسول لوگوں کو مطلع کرے گا اور اگر تو ان سے پوچھے کہ کیا تم واقعی ہنسی مخول کرتے تھے؟ تو فوراً کہہ دیں گے کہ ہم تو یوں ہی باتیں جپتیں اور مذاق کر رہے تھے خدانخواستہ ہماری کوئی بد نتر نہ تھی بلکہ ایسی نیت کرنی ہم بے ایمانی جانتے ہیں تو ان سے کہہ کیا اللہ اور اس کے حکموں اور اس کے رسول سے مسخری کرتے ہو بس اب عذر نہ کرو تم ایمان لائے پیچھے یعنی اظہار ایمان کر کے کافر ہوچکے ہو اگر ہم (خدا) تم میں سے کسی ایک پارٹی کو معاف کریں بھی تو دوسری جماعت کو ضرور ہی عذاب کریں گے جو اس فساد کے سرغنہ ہیں کیونکہ وہی مجرم ہیں۔ (راقم کہتا ہے میرے ساتھ بھی ایک دفعہ بعینہٖ ایسا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر معاملہ ہوا ایام محرم میں خاکسار اپنے مکان کے پاس وعظ کہا کرتا تھا جس کے سننے کو عموماً اہل ایمان دور دور سے بھی آتے تھے مگر تعزیہ داروں کو (جن کی اصلاح وعظ میں مقصود تھی) برا معلوم ہوا آخر انہوں نے ایک تجویز نکالی کہ مجلس وعظ کے مقابل ہی چند آدمیوں کے فاصلہ پر فاحشہ رنڈیوں کو بٹھا کر مرثیہ سننے شروع کر دئیے اور ہمیں پیغام دینے شروع کئے کہ وعظ بند کر دو ورنہ فساد ہوجائے گا لیکن غیرت مند ایمانداروں کو یہ کب گوارا تھا ان پر ان عیاروں کا کوئی اثر نہ ہوا اور وعظ برابر ہوتا رہا جس کا نتیجہ بفضلہ تعالیٰ یہ ہوا کہ شہرکے تمام مسلمان اور کفار ان پر لعنت کر رہے تھے۔ علیہم ما یستحقونۃ۔)