سورة الاعراف - آیت 31

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے اولاد آدم (علیہ السلام) کی ہر نماز کے وقت اپنی زینت (لباس) لے لیا کرو ، اور کھاؤ پیو ، اور فضول خرچ نہ کرو ، کہ وہ فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (ف ٢) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم پر لباس نازل کرنے کے بعد جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپتے ہیں اور زینت اختیار کرتے ہیں، فرمایا : ﴿يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ ﴾” اے بنی آدم ! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مزین کیا کرو۔“ یعنی ہر نماز کے وقت، خواہ نماز فرض ہو یا نفل، اپنے ستر کو ڈھانپو، کیونکہ ستر ڈھانپنا ہی بدن کی زینت ہے جیسے ستر کو کھولنا بدن کو قبیح اور بدنما بنا دیتا ہے۔ اس آیت میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس زینت سے مراد لباس کی نظافت ہو۔ پس اس صورت میں آیت کریمہ میں نماز کے اندر ستر ڈھانپنے، زینت اختیار کرنے اور لباس کو میل کچیل اور نجاست سے پاک رکھنے کا حکم ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا﴾ ” اور کھاؤ اور پیو۔“ یعنی ان پاک چیزوں میں سے کھاؤ پیو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہیں ﴿وَلَا تُسْرِفُوا  ﴾ اور (ان میں) اسراف نہ کرو۔“ اسراف سے یا تو یہ مراد ہے کہ ماکولات کو اس مقدار سے زیادہ استعمال کرنا جو انسان کو کفایت کرتی ہیں کیونکہ ماکولات کو زیادہ کھانے کی حرص جسم کو نقصان دیتی ہے۔ یا اس سے مراد ہے ماکولات، مشروبات اور ملبوسات میں حد سے زیادہ خرچ کرنا۔ یا مراد ہے حلال سے تجاوز کر کے حرام میں پڑنا۔ ﴿إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾” بے شک وہ (اللہ) اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا“ کیونکہ حد سے تجاوز کرنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ اسراف انسان کے جسم اور اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسراف بسا اوقات انسان کو ایسی حالت تک پہنچا دیتا ہے کہ وہ ان نفقات سے بھی عاجز رہ جاتا ہے جو اس پر واجب ہیں۔ اس آیت کریمہ میں کھانے پینے کا حکم ہے اور کھانا پینا چھوڑنے اور اس میں اسراف کرنے کی ممانعت ہے۔