إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
جنہوں نے اپنے دین میں راہیں نکالیں ‘ اور کئی فرقہ ہوگئے ، تجھے ان سے کیا کام ، ان کا معاملہ خدا کی طرف ہے پھر وہ انہیں جتائے گا جو وہ کرتے تھے (ف ٣) ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کو وعید سناتا ہے جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے فرقوں میں بٹ گئے اور ہر ایک نے اپنا ایک نام رکھ لیا جو انسان کے لئے اس کے دین میں کوئی کام نہیں آتا جیسے یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت وغیرہ یا اس سے انسان کے ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی، جیسے وہ شریعت میں سے کسی ایک چیز کو اخذ کر کے اس کو دین بنا لے اور اس جیسے یا اس سے کسی افضل چیز کو چھوڑ دے جیسا کہ اہل بدعت اور ان گمراہ فرقوں کا حال ہے جنہوں نے امت سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ دین اجتماعیت اور اکٹھے رہنے کا حکم دیتا ہے اور تفرقہ بازی اور اہل دین میں اور تمام اصولی و فروعی مسائل میں اختلاف پیدا کرنے سے روکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا آپ ان لوگوں سے برأت کا اظہار کریں جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا۔ ﴿ لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ﴾” ان سے آپ کو کچھ کام نہیں۔“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ہیں نہ وہ آپ میں سے۔ کیونکہ انہوں نے آپ کی مخالفت کی اور آپ سے عناد رکھا۔ ﴿ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّـهِ ﴾ ” ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔“ یعنی ان کو اللہ کی طرف لوٹایا جائے گا، وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ﴿ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ ” پھر وہ (اللہ) ان کو ان کے افعال سے آگاہ کرے گا۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے جزا کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا :