هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ
کیا یہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ، یا تیرا رب ان کے پاس آئے یا کوئی نشانی تیرے رب کی ظاہر ہو (حالانکہ) جس دن تیرے رب کی ایک نشانی ظاہر ہوگی کسی کو اس کا ایمان مفید نہ ہوگا ، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا ، یا اپنے ایمان میں پہلے سے کچھ بھلائی نہ کی تھی ، تو کہہ راہ تکتے رہو ، (ف ٢) ۔ ہم بھی راہ تکتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو اپنے ظلم و عناد پر جمے ہوئے ہیں، اس بات کا انتظار کر رہے ہیں ﴿ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ ﴾ ”کہ ان کے پاس فرشتے آئیں۔“ یعنی آخرت اور عذاب کے مقدمات کی صورت میں ان کے سامنے فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لئے آحا ضر ہوں۔ کیونکہ جب وہ اس حالت کو پہنچ جائیں گے تو اس وقت ایمان اور اعمال صالحہ ان کو کوئی فائدہ نہ دیں گے۔﴿أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ﴾ ” یا خود تمہارا رب آئے۔“ یعنی تمہارا رب بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے، نیکو کاروں اور بدکاروں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لئے آجائے ﴿أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ﴾ ” یا تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں“ جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہوں ﴿ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ﴾ ” جس دن تمہارے رب کی کچھ نشانیاں آجائیں گی“ یعنی خارق عادت معجزات جن سے یہ معلوم ہو کہ قیامت کی گھڑی قریب آن لگی ہے اور بہت قریب پہنچ گئی ہے ﴿ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا﴾ ” تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے۔“ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیاں آموجود ہوں گی، تو اس کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی فائدہ دے گا نہ کوتاہی کے شکار مومن کے اعمال میں اضافہ اس کے کسی کام آئے گا بلکہ صرف وہی ایمان کی پونجی اس کے کام آئے گی جو تھوڑی بہت اس کے دامن میں ہوگی اور صرف وہی نیک اعمال اس کو فائدہ دیں گے جو اللہ تعالیٰ کی نشانیاں آجانے سے قبل اس نے کئے ہوں گے۔ اس میں ظاہری حکمت یہ ہے کہ ایمان صرف وہی فائدہ دیتا ہے جو بالغیب ہو اور بندہ اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لایا ہو۔ لیکن جب اللہ کی نشانیاں آجائیں اور معاملہ غیب سے شہادت میں منتقل ہوجائے، تو ایمان لانے میں کوئی فائدہ نہیں رہتا۔ کیونکہ یہ جبری ایمان کے مشابہ ہے مثلاً ڈوبتے ہوئے یا جلتے شخص وغیرہ کا ایمان لانا، یعنی وہ شخص جب موت کا چہرہ دیکھ لیتا ہے، تو اپنی بد اعمالیوں کو ختم کردیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّـهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ﴾ (المؤمن:40؍84، 85) ” پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو پکار اٹھے کہ ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جن کو ہم اللہ کا شریک بنایا کرتے تھے۔ مگر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ یہ سنت الٰہی ہے جو اس کے بندوں کے بارے میں چلی آرہی ہے۔ “ بہت سی صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ یہاں ” اللہ تعالیٰ کی بعض نشانیوں“ سے مراد ہے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، لوگ جب سورج کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھیں گے تو جھٹ ایمان لے آئیں گے مگر ان کا ایمان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا اور اس وقت توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب، حديث: 6506] چونکہ یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھٹلانے والوں کے لئے وعید ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان نشانیوں کے ظہور کے منتظر ہیں اور کفار بھی منتظر ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ ﴾ ” کہہ دیجیے، تم انتظار کرو، ہم بھی انتظار کر رہے ہیں“ پس عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم میں سے کون امن کا مستحق ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے افعال اختیاری کا اثبات ہے مثلاً استواء علی العرش، آسمان دنیا پر نازل ہونا اور اس کا آنا، مخلوق کی صفات کے ساتھ کسی تشبیہ کے بغیر اور اس اعتبار سے یہ اہل سنت و الجماعت کے مذہب کی دلیل ہے اور اس موضوع پر کتاب و سنت میں بہت سا مواد موجود ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کی جملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکمت والا ہے کائنات میں اس کی یہ سنت و عادت جاری و ساری ہے کہ ایمان صرف اسی وقت فائدہ دیتا ہے جبکہ وہ اختیاری ہو اضطراری نہ ہو۔ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے۔ نیز یہ کہ انسان کا اکتساب خیر ایمان ہی کے ساتھ فائدہ مند ہے نیکی، تقویٰ وغیرہ اسی وقت فائدہ دیتے ہیں اور نشو و نما پاتے ہیں جب بندے کے دامن میں سرمایہ ایمان بھی ہو۔ جب قلب ایمان سے خالی ہو تو بندے کو کوئی چیز فائدہ نہیں دیتی۔