وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یتیم کے مال کے نزدیک نہ جاؤ مگر جس طرح بہتر ہو ، یہاں تک کہ اپنی جوانی کو پہنچے اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پوری کرو ، ہم کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب بولو تو انصاف سے بولو ، اگرچہ قرابتی کیوں نہ ہو ، اور اللہ کا عہد پورا کرو ، یہ باتیں ہیں جن کا اس نے تمہیں حکم دیا ہے شاید تم سوچو ۔
﴿وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ ﴾” اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے“ یعنی مال کھانے کے لئے، یا اپنے لئے معاوضہ بنانے یا بغیر کسی سبب کے مال لینے کے لئے۔ ﴿ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾” مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔“ یعنی البتہ ایسے طریقے سے ان کے مال کے قریب جاؤ جس سے ان کے مال کی اصلاح ہو اور وہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے ان کے مال کی اصلاح ہو اوہ اس مال سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ اس طریقے سے یتیموں کے مال کے قریب جانا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں جس سے یتیموں کو نقصان پہنچتا ہو اور اس طریقے سے بھی ان کے مال کے قریب جانا جائز نہیں جس میں کوئی نقصان تو نہ ہو البتہ اس میں کوئی مصلحت بھی نہ ہو۔ ﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ﴾ ” حتی کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔“ یعنی یہاں تک کہ یتیم بالغ اور سمجھ دار ہوجائے اور اسے مال میں تصرف کرنے کی معرفت حاصل ہوجائے اور جب وہ سمجھ دار اور بالغ ہوجائے تو اس وقت مال اس کے حوالے کیا جائے اور وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق اس مال میں تصرف کرے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ یتیم بالغ ہونے سے قبل اپنے مال میں تصرف نہیں کرسکتا۔ اس کے سرپرست کو مال میں احسن طریقے سے تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ مال کے تصرف پر یہ پابندی یتیم کے بالغ ہونے پر ختم ہوجائے گی۔ ﴿وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ﴾ ” نہایت عدل و انصاف سے ناپ تول کر پورا کرو“ یعنی جب تم انصاف کے ساتھ ناپ تول کو پورا کرنے کی ذمہ داری کو ادا کرنے میں جدوجہد کرو گے تو ﴿ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ ﴾ ” ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔“ یعنی ہم اس کی مقدرت کے مطابق اسے مکلف بناتے ہیں اور ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتے جو اس کے بس سے باہر ہو، پس جو کوئی ناپ تول کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور اس میں ہرگز کوتاہی نہیں برتتا اور لاعلمی میں کوئی تقصیر باقی رہ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ اس آیت کریمہ سے علمائے اصول یہ اصول اخذ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ پس اسے جو حکم دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ممکن حد تک اس کی تعمیل کرتا ہے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ﴿وَإِذَا قُلْتُمْ ﴾ ” جب کوئی بات کہو۔“ یعنی جب تم کوئی بات کہو جو لوگوں کے درمیان کسی فیصلے، کسی خطاب کی تفصیل پر مبنی ہو یا تم احوال و مقالات پر کلام کر رہے ہو ﴿فَاعْدِلُوا ﴾” تو انصاف سے کہو۔‘‘ یعنی صدق، انصاف اور عدم کتمان کو مدنظر رکھتے ہوئے ان لوگوں کے درمیان جن کو تم پسند کرتے ہو یا ناپسند کرتے ہو، عدل سے بات کرو کیونکہ جسے آپ ناپسند کرتے ہیں اس کے بارے میں یا اس کے مقالات کے بارے میں اس کے خلاف حد سے بڑھ کر بات کرنا ظلم ہے جو کہ حرام ہے، بلکہ اگر صاحب علم اہل بدعت کے مقالات و نظریات پر کلام کرتا ہے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ہر حق دار کو اس کا حق عطا کرے اور ان مقالات میں جو کچھ حق اور باطل موجود ہے اس کو پوری طرح بیان کرے کہ ان مقالات میں کون سی چیز حق کے قریب اور کون سی چیز حق سے دور ہے۔ فقہاء نے یہاں تک ذکر کیا ہے کہ قاضی پر فرض ہے کہ وہ فریقین کے درمیان اپنے لہجے اور اپنی نظر میں بھی انصاف کرے۔ ﴿وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُو ۚ ﴾ ” اور اللہ کا عہد پورا کرو“ یہ آیت کریمہ اس عہد کو بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنے حقوق پورے کروانے کے بارے میں لیا ہے اور اس عہد کو بھی شامل ہے جو مخلوق کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ پس ان تمام معاہدوں کو پورا کرنا فرض اور ان کو توڑنا یا ان میں خلل اندازی کرنا حرام ہے ﴿ذَٰلِكُمْ﴾ مذکورہ تمام احکام میں ﴿وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾” تم کو حکم کردیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو“ یعنی وہ تمام احکام جو اس نے تمہارے لئے بیان کئے ہیں اور تم اللہ تعالیٰ کی اس وصیت کو پوری طرح قائم کرو جو اس نے تمہیں کی ہے اور تم ان تمام حکمتوں اور احکام کی معرفت حاصل کرلو جو ان کے اندر ہیں۔