وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ
اور (اہل مکہ) بتاکید اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک معجزہ بھی آئے تو وہ ضرور اس پر ایمان لائیں گے ، تو کہہ معجزے تو خدا کے پاس ہیں ‘ اور تم (مسلمانوں) کو کون سمجھائے کہ جب ان کے پاس معجزہ آئے گا تو وہ جب بھی نہ مانیں گے ۔
یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے مشرکین قسمیں اٹھاتے ہیں ﴿ بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ﴾ یعنی زور دار اور موکد قسمیں﴿ لَئِن جَاءَتْهُمْ آيَةٌ﴾ ” اگر ان کے پاس کوئی نشانی آگئی“ جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر دلالت کرتی ہو ﴿لَّيُؤْمِنُنَّ بِهَا﴾” تو وہ ضرور اس پر ایمان لے آئیں گے۔“ یہ کلام جو ان سے صادر ہوا اس سے ان کا مقصد طلب ہدایت نہ تھا بلکہ ان کا مقصد تو محض دفع اعتراض اور اس چیز کو قطعی طور پر ٹھکرانا تھا جو انبیاء و رسل لے کر آئے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آیات بینات اور واضح دلائل کے ساتھ تائید فرمائی۔ ان دلائل کی طرف التفات کرنے سے اس بات میں ادنیٰ سا شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ صحیح ہے۔ اس کے بعد ان آیات و معجزات کا مطالبہ کرنا محض تعنت ہے جس کا جواب دینا لازم نہیں، بلکہ کبھی کبھی ان کو جواب نہ دینا ان کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اس کی سنت یہ ہے کہ اس کے انبیاء و رسل سے معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس جب معجزات آجاتے ہیں اور وہ ان پر ایمان نہیں لاتے تو ان پر عذاب بھیج دیا جاتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّـهِ﴾ ” کہہ دیجیے ! کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو جب چاہتا ہے معجزات نازل کرتا ہے اور وہ جب چاہتا ہے روک دیتا ہے۔ میرے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ لہٰذا مجھ سے تمہارا مطالبہ کرنا ظلم اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جس پر مجھے کوئی اختیار نہیں، تاہم تمہارا مقصود اس سے صرف اس چیز کی توضیح و تصدیق ہے۔ جو میں لایا ہوں جب کہ وہ ثابت شدہ امر ہے۔ بایں ہمہ یہ بھی معلوم نہیں کہ جب ان کے پاس یہ نشانیاں آجائیں گی تو یہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور ان کی تصدیق کریں گے۔ بلکہ ان کے احوال یہ ہیں کہ وہ غالب طور پر صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق سے محروم ہونے کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾ ” اور تمہیں کیا معلوم کہ جب ان کے پاس نشانیاں آ بھی جائیں، تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ “