وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اور یوں ہم پھیر پھیر کر آیتیں بیان کرتے ہیں اور یہ اس لئے کہ وہ کہیں کہ تو تو پڑھا ہوا ہے (ف ٣) ۔ اور اس لئے کہ ہم اس کو سمجھ والوں کیلئے بیان کریں ،
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایک ایسے کام سے روکا ہے جو بنیادی طور پر جائز بلکہ مشروع ہے اور وہ ہے مشرکین کے معبودوں کو سب و شتم کرنا۔ جن کے بت بنائے گئے اور جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا لیا گیا ہے، ان کی اہانت اور سب و شتم سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، لیکن چونکہ یہ سب و شتم مشرکین کے لئے اللہ رب العالمین کو سب و شتم کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے جس عظیم ذات کی، ہر عیب و آفت اور سب و شتم سے تنزیہہ واجب ہے، اس لئے مشرکین کے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے روک دیا گیا ہے، کیونکہ وہ اپنے دین میں متعصب ہیں اور اپنے دین کے لئے جوش میں آجاتے ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے اعمال کو ان کے لئے مزین کردیا ہے۔ وہ اعمال انہیں اچھے دکھائی دیتے ہیں لہٰذا وہ ہر طریقے سے ان کی مدافعت کرتے ہیں، حتیٰ کہ اگر مسلمان ان کے معبودوں کو گالی دیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھی گالی دیئے بغیر نہیں رہتے جس کی عظمت ابرار و فجار کے دلوں میں راسخ ہے۔ مگر تمام مخلوق کو انجام کار قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتا ہے، پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے اور ان کے اعمال پیش کئے جائیں گے اور جو وہ اچھا برا کام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو آگاہ کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں اس شرعی قاعدہ پر دلیل ہے کہ وسائل کا اعتبار ان امور کے ذریعے سے کیا جاتا ہے جن تک یہ پہنچاتے ہیں چنانچہ امور محرمہ کی طرف لے جانے والے وسائل و ذرائع حرام ہیں، خواہ وہ فی نفسہ حلال ہی کیوں نہ ہوں۔