سورة الانعام - آیت 94

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تم ہمارے پاس ایک ایک کر کے آئے جیسے ہم نے پہلی دفعہ تمہیں پیدا کیا تھا ، اور جو اسباب ہم نے تمہیں دیا تھا اس کو تم پس پشت چھوڑ آئے ہو ، اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تمہارا یہ دعوی تھا کہ وہ تمہارے شریک ہیں تمہارے درمیان کا پیوند ٹوٹ گیا ، اور جو دعوی تم کرتے تھے جاتا رہا (ف ١) ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ﴾ ” البتہ تم ہمارے پاس آگئے ایک ایک ہو کر جیسے ہم نے پیدا کیا تھا تم کو پہلی مرتبہ اور چھوڑ آئے تم جو کچھ اسباب ہم نے دیئے تھے تمہیں“ یعنی جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا اور جن نعمتوں سے ہم نے تمہیں نوازا تھا ﴿وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ﴾ ” اپنے پیچھے“ انہیں پیچھے چھوڑ آئے ہو اور وہ تمہارے کسی کام نہ آئیں گی ﴿ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَؤُا﴾”اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ سفارشیوں کو جن کو تم گمان کرتے تھے کہ ان کا تم میں ساجھا ہے“ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا کرتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملائکہ، انبیاء اور صالحین وغیرہم کی عبادت بھی کیا کرتے تھے، حالانکہ یہ سب اللہ کی ملکیت ہیں مگر وہ لوگ ان مخلوق ہستیوں کے لئے ایک حصہ ٹھہراتے تھے اور اپنی عبادت میں ان کو شریک کرتے تھے اور یہ ان کا زعم باطل اور ظلم ہے کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا مالک اور ان کی عبادت کا مستحق ہے، لہٰذا ان کے شرک فی العبادۃ بعض بندوں کو عبادت کا مستحق ٹھہرانے اور ان کو خالق و مالک کا مقام دینے کی بنا پر قیامت کے روز ان کو زجر و توبیخ کی جائے گی اور ان سے مذکورہ بات کہی جائے گی۔ ﴿لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ ﴾” تمہارے آپس کے سب تعلقات منقطع ہوگئے۔“ یعنی آج تمہارے اور تمہارے شرکاء کے مابین سفارش وغیرہ کے تمام روابط اور تعلقات منقطع ہوگئے اور ان تعلقات نے کوئی فائدہ نہ دیا۔ ﴿وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴾ ” اور جاتے رہے وہ دعوے جو تم کیا کرتے تھے۔“ وہ نفع، امن، سعادت اور نجات جن کے وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے، گم ہوگئے جن کو شیطان تمہارے سامنے مزین کیا کرتا تھا، تمہارے دلوں میں انہیں خوبصورت بنایا کرتا تھا اور تمہاری زبانوں پر ان کا ذکر رہا کرتا تھا اور تم اپنے اس زعم باطل کے فریب میں مبتلا رہے جس کی کوئی حقیقت نہیں یہاں تک کہ ان تمام دعووں کا بطلان واضح ہوگیا اور ظاہر ہوگیا کہ تم خود اپنی ذات، اپنے اہل وعیال اور اپنے مال و متاع کے بارے میں خسارے میں پڑے رہے۔