سورة البقرة - آیت 76

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

جب مومنوں سے ملتے ہیں کہتے ہی ہم ایمان لائے اور جب ایک دوسرے کے پاس اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں تم کیوں ان (مسلمانوں) سے وہ باتیں کہہ دیتے ہو جو خدا نے تم پر کھولی ہیں تاکہ وہ ان سے تم پر تمہارے خدا کے سامنے حجت لائیں (جھگڑیں) کیا تم کو عقل نہیں ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ﴾” جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے“ یعنی انہوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔﴿ وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ﴾ ”یعنی جب وہ خلوت میں ہوتے ہیں اور ان کے ہم مذہبوں کے سوا ان کے پاس کوئی اور نہیں ہوتا تووہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں : ﴿أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ ﴾’’کیاتم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں؟“ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو؟ پس یہ چیز ان کے لئے تمہارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ (یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انہوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمہارے خلاف دلیل دیں گے۔﴿ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ﴾ ” کیا پس تم سمجھتے نہیں؟“ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمہارے خلاف حجت ہوگی؟