إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) میرا احسان یاد کر جو میں نے تجھ پر اور تیری ماں پر کیا تھا جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی تو لوگوں سے والدہ کی گود میں بھی (ف ١) ۔ بولتا تھا اور بڑا ہو کر بھی اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور توریت وانجیل سکھلائی تھی ، اور جب تو مٹی سے (ف ٢) ۔ پرندہ کی صورت میرے حکم سے بناتا تھا ، پھر تو اس میں پھونک مارتا تھا ، تو وہ پرندہ بن جاتا تھا میرے حکم سے ، اور تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے چنگا کردیتا تھا اور جب تو میرے حکم سے (قبروں سے) مردے نکال کھڑے کرتا تھا اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا تھا جب تو انہیں نشانیاں لایا تھا تو جو ان میں کافر تھے کہنے لگے تھے کہ یہ تو صریح جادو ہے (ف ٣) ۔
﴿تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ﴾ ” تو کلام کرتا تھا لوگوں سے گود میں اور بڑی عمر میں“ یہاں کلام کرنے سے مراد مجرد کلام کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ کلام ہے جس سے متکلم اور مخاطب دونوں مستفید ہوں اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا۔ جناب عیسیٰ کو اس عمر میں رسالت، بھلائیوں کی طرف دعوت اور برائیوں سے روکنے کی ذمہ داری عطا کردی گئی اور دیگر اولوالعزم انبیاء و مرسلین کو بڑی عمر میں یہ ذمہ داری عطا کی گئی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام انبیائے کرام میں اس بنا پر ممتاز ہیں کہ انہوں نے پنگوڑے میں کلام فرمایا ﴿ إِنِّي عَبْدُ اللَّـهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا ﴾ (مریم :19؍ 30۔31) ” میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب عطا کی اور مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا۔ جب تک میں زندہ رہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کی وصیت فرمائی۔ “ ﴿وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ ” اور جب سکھلائی میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت“ یہ کتاب تمام کتب سابقہ خصوصاً تو رات کو شامل ہے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جناب موسیٰ علیہ السلام کے بعد تورات کے سب سے بڑے عالم تھ۔۔۔ اور انجیل کو بھی شامل ہے جو ان پر نازل کی گئی۔۔۔ حکمت سے اسرار شریعت، اس کے فوائد اور اس کی حکمتوں کی معرفت، دعوت و تعلیم کی خوبی اور تمام امور کا ان کی اہمیت اور مناسبت کے مطابق خیال رکھنا مراد ہے۔ ﴿وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ﴾” اور جب تو بناتا تھا گارے سے جانور کی سی صورت“ یعنی پرندوں کی تصویر جس میں روح نہیں ہوتی ﴿فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ ﴾ ” پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے والا ہوجاتا اور اچھا کرتا تھا تو مادر زاد اندھے کو“ (الْأَكْمَهَ ) اس شخص کو کہتے ہیں جس کی بینائی ہو نہ آنکھ ﴿وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي﴾” اور کوڑھی کو، میرے حکم سے اور جب نکال کھڑا کرتا تھا تو مردوں کو میرے حکم سے“ یہ واضح نشانیاں اور نمایاں معجزات ہیں جن سے بڑے بڑے اطباء وغیرہ بھی عاجز ہیں۔ ان معجزات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی اور اس کے ذریعے سے ان کی دعوت کو تقویت بخشی۔ ﴿وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ﴾” اور جب روکا میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے جب تو لے کر آیا ان کے پاس نشانیاں تو کہا ان لوگوں نے جو ان میں سے کافر تھے“ یعنی جب ان کے پاس حق آگیا جس کی ایسے دلائل کے ساتھ تائید کی گئی تھی جن پر ایمان لانا واجب ہے تو انہوں نے کہا : ﴿إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو کھلا جادو ہے“ اور انہوں نے جناب عیسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی پوری کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ان سے حفاظت کی اور ان کو ان کے شر سے بچا لیا۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات جن سے اس نے اپنے بندے اور رسول عیسیٰ ابن مریم کو نوازا اور ان کو ان احسانات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور ان کو قائم کرنے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت عیسیٰ نے ان احسانات کے تقاضوں کو پوری طرح ادا کیا اور اس راہ کی سختیوں پر اس طرح صبر کیا جس طرح دیگر اولوالعزم انبیاء و رسل نے صبر کیا تھا۔