إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے سے تمہارے درمیان عدوت اور بیر ڈالے اور تمہیں خدا کے ذکر اور نماز سے روکے ، پس کیا تم باز آنا چاہتے ہو (ف ١) ۔
شراب اور جوا تو ذکر الٰہی اور نماز کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قلب مشغول ہوجاتا ہے اور ذہن شراب اور جوئے میں مشغول ہو کر غافل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ طویل مدت اس پر گزر جاتی ہے اور انسان کو ہوش تک نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے۔ پس کون سا گناہ اس گناہ سے بڑھ کر قبیح ہے جو انسان کو ناپاک کر کے ناپاک لوگوں میں شامل کر دے اور وہ اسے شیطان کے اعمال اور اس کے مکرو فریب کے جال میں پھنسا دے اور وہ شیطان کا اس طرح مطیع ہوجائے جس طرح مویشی چروا ہے کے مطیع ہوتے ہیں۔ شیطان بندے اور اس کی فلاح کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اہل ایمان کے درمیان بغض اور عداوت کا بیج بوتا ہے اور انہیں ذکر الٰہی اور نماز سے روکتا ہے۔ (کیا یہ مفاسد جو مذکور ہوئے، کم ہیں؟) اور کیا ان مفاسد سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہے جو ان سے بڑی ہو؟ بنابریں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم کو ان چیزوں سے روکتے ہوئے فرمایا ﴿ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ﴾” کیا تم باز آتے ہو؟“ کیونکہ ایک عقل مند شخص جب ان مفاسد میں سے کسی ایک پر نظر ڈالتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور اپنے آپ کو ان برائیوں کے ارتکاب سے باز رکھتا ہے۔ اسے کسی لمبے چوڑے وعظ اور بہت زیادہ زجر و توبیخ کی ضرورت نہیں ہوتی۔