فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
سو ان کی عہد شکنی کے سبب ہم نے لعنت کی اور ان کے دل سیاہ کردیئے کہ وہ ان کو ان کے ٹھکانوں سے بدلتے ہیں اور جو نصیحت ان کو ملی تھی اس کا ایک حصہ بھول گئے تو ہمیشہ ان کی ایک خیانت سے پاتا رہا مگر تھوڑے ان میں ایسے نہیں سو ان کو کر اور انہیں معاف رکھ ، بےشک خدا معاف کرنے والوں کا چاہتا ہے (ف ١)
چنانچہ فرمایا : ﴿فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ ﴾ ” تو ان لوگوں کے عہد توڑ دینے کے سبب۔“ یعنی ان کے نقض عہد کے سبب سے ہم نے ان کو متعدد سزائیں دیں۔ (١) ﴿لَعَنَّاهُمْ ﴾ ” ہم نے ان پر لعنت کی۔“ یعنی ہم نے ان کو دھتکار کر اپنی رحمت سے دور کردیا، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے بند کر لئے اور انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہونے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ (٢) ﴿وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ﴾ ” اور ان کے دلوں کو سخت کردیا۔“ یعنی ہم نے ان کو پتھر دل بنا دیا۔ پس وعظ و نصیحت ان کے کسی کام آسکتے ہیں نہ آیات اور نہ ہی برے انجام سے ڈرانے والے انہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ کوئی شوق انہیں ترغیب دے سکتا ہے نہ کوئی خوف ان کو یہ عہد پورا کرنے کے لئے بے قرار کرسکتا ہے۔ بندے کے لئے یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ اس کے دل کی یہ کیفیت ہوجائے کہ ہدایت اور بھلائی بھی اس پر برا اثر کریں۔ (٣) ﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ﴾ ” یہ لوگ کلمات (کتاب) کو اپنے مقامات سے بدل دیتے ہیں۔“ یعنی وہ کلام اللہ میں تغیر و تبدل کے بھی مرتکب ہوئے، چنانچہ انہوں نے کلام الٰہی کے اس معنی کو، جو اللہ تعالیٰ کی مراد تھا، بدل کر وہ معنی بنا دیا جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ تھا۔ (٤) ﴿وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ﴾ ” اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے۔“ انہیں تو رات اور ان تعلیمات کے ذریعے سے نصیحت کی گئی جو موسیٰ پر نازل کی گئی تھیں، مگر انہوں نے ان کو فراموش کردیا۔ یہ اس بات کو بھی شامل ہے کہ انہوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے علم کو فراموش کردیا بنا بریں علم ان سے ضائع ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ بہت سا علم ناپید ہوگیا۔ یہ آیت کریمہ نسیان عمل کو بھی شامل ہے جو ترک عمل کا نتیجہ ہے، پس جس چیز کا انہیں حکم دیا گیا تھا اس پر عمل کرنے کی ان کو توفیق نہ ہوئی۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے بعض ان امور کا جو انکار کیا جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے، یا ان کے زمانے میں واقع ہوئے، یہ بھی ان باتوں میں سے ہے جن کو انہوں نے فراموش کیا۔ (٥) دائمی خیانت، جس کے بارے میں فرمایا :﴿وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ ﴾ ”اور آپ ہمیشہ مطلع ہوتے رہتے ہیں ان کی خیانت پر‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے بندوں کے ساتھ خیانت اور ان کی سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ انہوں نے ان لوگوں سے حق کو چھپایا جو ان کو نصیحت کرتے تھے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے اور ان کو ان کے کفر پر باقی رکھنا۔ پس یہ بہت بڑی خیانت ہے اور جو کوئی ان صفات سے متصف ہوتا ہے اس میں یہ مذموم خصائل پائے جاتے ہیں۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور ان کا التزام نہیں کرتا تو اس لعنت، قساوت قلبی اور کلام الٰہی کی تحریف میں وہ بھی حصہ دار ہوتا ہے۔ اس کو بھی حق اور صواب کی توفیق نہیں ملتی، وہ بھی ان امور کو فراموش کرنے کا مرتکب ہوتا ہے جن کی اسے یاد دہانی کروائی گئی تھی اور ایسے شخص کا خیانت میں مبتلا ہونا بھی یقینی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلبگار ہیں۔ جس امر کی انہیں یاد دہانی کروائی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو (حَظٌّ) ” حصہ، نصیبہ“ کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کیونکہ یہ سب سے بڑا حظ ہے اس کے علاوہ دیگر تمام حظوظ دنیاوی حظوظ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴾(القصص:28؍79) ” قارون بڑی سج دھج کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے طالب تھے، کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ دیا گیا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ وہ تو بہت بڑے نصیبے والا ہے۔“ اور حظ نافع کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾(حم السجدہ :41؍35) ” یہ بات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور اس سے وہی لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں جو بہت بڑے نصیبے والے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ﴾ ” تھوڑے آدمیوں کے سوا۔“ یعنی وہ لوگ بہت کم تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اسے پورا کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق سے نوازا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہنمائی کی ﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ﴾ ” پس آپ ان کی خطائیں معاف کردیں اور ان سے در گزر فرمائیں۔“ ان کی طرف سے آپ کو جو بھی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے جو معاف کردینے کے قابل ہوا اسے معاف کردیا کریں اور ان سے درگزر کیجیے کیونکہ یہ بھلائی ہے ﴿إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴾” بیشک اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔“ اور احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اپنے آپ میں یہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ تو تجھے دیکھ رہا ہے اور مخلوق کے حق میں احسان یہ ہے کہ تو انہیں دینی اور دنیاوی فائدے سے نوازے۔