يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ تجھ سے فتوی مانگتے ہیں ، تو کہہ اللہ تمہیں کلالہ (اوت نپوت) کے بارے میں فتوی دیتا ہے کہ اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو اور اس کے ایک بہن ہو تو اس کو آدھا پہنچے گا جو چھوڑ مرا اور یہ بھائی بھی اس بہن کا وارث ہے اگر اس کے اولاد نہ ہو ، پھر اگر اس کے دو بہنیں ہوں تو اس کے ترکہ سے ان دونوں بہنوں کو دو تہائی ہیں ، اور اگر اس کے وارث کئی بہن بھائی ہوں تو مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے ، اللہ تمہارے لئے بیان کرتا ہے تاکہ تم نہ بہکو اور اللہ ہر شے سے واقف ہے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ طلب کیا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے ﴿قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ﴾” کہہ دیجیے ! اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے“ (كَلَالَہ) سے مراد وہ میت ہے جس کی صلب سے کوئی اولاد ہو، نہ کوئی پوتا پوتی، نہ باپ ہو نہ دادا۔ اس لئے فرمایا :﴿إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ ﴾ ” اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو۔“ یعنی اس کا کوئی بیٹا یا بیٹی ہو؟؟؟، نہ صلبی بیٹا ہو اور نہ بیٹے کا بیٹا ہو۔۔۔ اور اسی طرح نہ اس کا باپ ہو اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بھائی اور بہنیں اس کے وارث بنیں گے کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ بہن بھائی باپ کی معیت میں وارث نہیں بنیں گے۔ پس جب ایسا شخص فوت ہوجائے گا جس کی اولاد ہے نہ باپ ﴿وَلَهُ أُخْتٌ ﴾ البتہ اس کے حقیقی یا باپ شریک بہن ہے، نہ کہ ماں شریک، کیونکہ اس کا حکم پہلے گزر چکا ہے۔ ﴿فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ﴾ ” اس (بہن) کے لئے ترکے میں سے آدھا حصہ ہے۔“ یعنی بہن کو کلالہ بھائی کے ترکہ یعنی نقدی، جائیداد اور دیگر اثاثوں میں سے نصف ملے گا۔ یہ حصہ میت کی وصیت پوری کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد دیا جائے گا۔ جیسا کہ اس کے بارے میں احکام گزشتہ اوراق میں گزر چکے ہیں۔ ﴿وَهُوَ ﴾ ” اور وہ‘‘ یعنی میت کا حقیقی بھائی یا باپ کی طرف سے بھائی ﴿يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ﴾ ” اس بہن کا وارث ہوگا، اگر اس کی اولاد نہیں ہوگی“ اور اس کے لئے حصہ میراث مقرر نہ ہوکیونکہ وہ تو عصبہ ہے اگر اصحاب فروض یا عصبہ میں شریک کوئی فرد نہ ہو تو وہ تمام ترکہ لے گا یا اصحاب فروض کو ان کے حصے دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے گا وہ اس کو ملے گا۔﴿فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ ﴾” اور اگر دو بہنیں ہوں۔“ یعنی دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں۔﴿فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ﴾ ” تو ان کو ترکے میں سے دو تہائی ملے گا‘‘ ﴿وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً ﴾ ” اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں۔“ یعنی اگر باپ کی طرف سے بھائی اور بہنیں وارث ہوں ﴿فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ﴾ ” تو مرد کے لئے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے‘‘ پس عورتوں کا مقررہ حصہ (دو تہائی) ساقط ہوجائے گا اور ان عورتوں کو ان کے بھائی عصبہ بنا دیں گے۔ (گویا اس میں عصبات کا حکم بیان کیا گیا ہے) عورتوں کا حصہ ساقط ہوجائے گا اور ان کے بھائی ان کے عصبہ بنیں گے۔ ﴿يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوْا﴾ ” اللہ تم سے اس لئے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو۔“ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ان احکام کو واضح کرتا ہے اور ان کی تشریح کرتا ہے جن کے تم محتاج ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل و احسان ہے تاکہ تم راہ ہدایت پالو اور تم اس کے احکام پر عمل کرو اور تاکہ تم اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے راہ راست سے بھٹک نہ جاؤ۔ ﴿وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ ” اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ غائب اور موجود، ماضی اور مستقبل کے تمام امور کو جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تم اس کی وضاحت اور تعلیم کے محتاج ہو، وہ اپنے علم میں سے تمہیں علم سکھاتا ہے جو تمہیں ہر زمان و مکان میں ہمیشہ فائدہ دے گا۔