وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا
اور جو کچھ زمین آسمان میں ہے اللہ ہی کا ہے اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان کو اور تم کو ہم نے وصیت کی ہے کہ اللہ سے ڈرو ۔ اور جو کافر ہوجاؤ تو جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے خدا کا ہے اور خدا بےپروا قابل تعریف ہے ۔ (ف ١)
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے وسیع اور عظیم اقتدار کے عموم کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ شرعاً اور قدراً مختلف طریقوں سے کائنات کی تدبیر کرے اور گوناگوں تصرفات کے ذریعے سے اس کا بندوبست کرے۔ اس کا تصرف شرعی یہ ہے کہ اس نے اولین و آخرین، اور کتب سابقہ اور بعد میں نازل ہونے والی کتابوں کے ماننے والوں کو تقویٰ کی وصیت کی ہے جو امرو نہی، تشریح احکام اور اس شخص کے لئے ثواب کو متضمن ہے جو اس وصیت پر عمل کرتا ہے اور اس شخص کے لئے درد ناک عذاب کی وعید کو متضمن ہے جو اس وصیت کو ضائع کرتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تَكْفُرُوا﴾ ” اور اگر کفر کرو گے۔“ یعنی اگر تم تقویٰ ترک کردو اور کفر اختیار کرلو اور ایسی چیزوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لو جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اس طرح تم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاؤ گے، اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار میں ذرہ بھر کمی نہیں کرسکتے۔ اس کے اور بھی بندے ہیں جو تم سے بہتر اور تم سے زیادہ اطاعت گزار اور اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : ﴿وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِيًّا حَمِيدًا﴾اللہ تبارک و تعالیٰ کامل جودو کرم اور احسان کا مالک ہے جو کچھ اس کی رحمت کے خزانوں سے صادر ہوتا ہے وہ خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ خزانے اگر دن رات خرچ ہوتے رہیں تب بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر زمین و آسمان کے رہنے والے اول سے لے کر آخر تک تمام لوگ اپنی اپنی آرزؤں کے مطابق اللہ تعالیٰ سے سوال کریں تو اس کی ملکیت میں ذرہ بھر کمی نہ ہوگی، کیونکہ وہ جواد ہے، ہر چیز کو وجود بخشنے والا اور بزرگی کا مالک ہے۔ وہ اپنے کلام سے عطا کرتا ہے اور اپنے کلام سے عذاب دیتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ” ہوجا“ اور وہ ہوجاتی ہے۔ اس کی تمام تر بے نیازی یہ ہے کہ وہ کامل اوصاف کا مالک ہے کیونکہ اگر کسی بھی لحاظ سے اس میں کوئی نقص ہوتا تو وہ اس کمال کے لئے محتاج ہوتا، بلکہ اس کے لئے کمال کی ہر صفت ہے اور انہی میں سے ایک صفت کمال ہے اور یہ اس کی بے نیازی ہی ہے کہ اس کی کوئی بیوی اور کوئی اولاد نہیں، اقتدار میں اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی مددگار اور اس کے اپنے اقتدار کی تدبیر میں اس کا کسی قسم کا کوئی معاون نہیں۔ یہ اس کا کامل غنا اور اس کی بے نیازی ہے کہ عالم علوی اور عالم سفلی اپنے تمام احوال اور تمام معاملات میں اسی کے محتاج ہیں اور اپنی چھوٹی بڑی حاجتوں میں اسی سے سوال کرتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے مطلوب اور سوال کو پورا کرتا ہے، ان کو غنی اور مال دار کردیتا ہے ان کو اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے اور انہیں راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ رہا اسم گرامی (حمید) تو یہ نام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شمار ہوتا ہے اور اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر قسم کی حمد و ثناء محبت اور اکرام کا مستحق ہے۔ اس لئے وہ صفات حمد سے متصف ہے جو کہ جمال و جلال کی صفات ہیں اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس لئے وہ ہر حال میں ” محمود“ ہے۔ ان دو اسمائے گرامی یعنی (اَلْغَنِيٌُ الْحَمِيْدُ) کا یکجا ہونا کتنا خوبصورت ہے۔ یقیناً وہ بے نیاز اور قابل تعریف ہے، اسے کمال بے نیازی بھی حاصل ہے اور کمال حمد بھی اور ان دونوں کے حسن امتزاج کا کمال بھی۔ یعنی وہ (غَنِيٌّ حَمِيْدٌ) ہے اور وہ قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ کا مالک ہے۔