أَلَا يَظُنُّ أُولَٰئِكَ أَنَّهُم مَّبْعُوثُونَ
کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اٹھائے جائیں گے ؟
پھر اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی اور ان کے حال اور ان کے اپنے اس طرز عمل پر قائم رہنے پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿اَلَا یَظُنُّ اُولٰیِٕکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ لِیَوْمٍ عَظِیْم یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ ” کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد عظیم دن کے لیے جی اٹھنے کا خیال نہیں “ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔“ پس جس چیز نے ان کے اندر کم ناپنے تولنے کی جرأت پیدا کی ہے ، وہ ہے آخرت پر ان کا عدم ایمان ورنہ اگر وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتے اور انہیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی کہ وہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور وہ ان کے اعمال پر ، کم ہوں یا زیادہ ، ان کا محاسبہ کرے گا تو وہ اس کام سے رک جاتے اور اس سے توبہ کرلیتے۔