وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے چھڑایا کہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے کہ تمہاری بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی (ف ٢) ۔
یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انہیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ﴿ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ﴾” وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب۔“ یعنی تمہیں ایذاء پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے ﴿یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَکُمْ﴾۔ اور وہ یہ کہ تمہارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمہاری تعداد بڑھ نہ جائے ﴿ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَاۗءَکُمْ﴾” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے“ یعنی وہ تمہاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمہاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمہیں قتل کردیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمہیں ذلیل کیا جاتا تھا اور تمہیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لئے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انہیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ ﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾” اور اس میں“ یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں ﴿ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾” تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے“ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔