سورة النسآء - آیت 42

يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّهَ حَدِيثًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اس دن کافر اور رسول کے نافرمان یوں آرزو کریں گے کہ کاش وہ زمین میں کسی طرح ملا دیئے جائیں اور خدا سے کوئی بات چھپا (ف ٤) نہ سکیں گے ۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿يَوْمَئِذٍ يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَعَصَوُا الرَّسُولَ﴾ ” جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے“ یعنی ان میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار اور رسول کی نافرمانی اکٹھے ہوگئے ہیں ﴿لَوْ تُسَوَّىٰ بِهِمُ الْأَرْضُ﴾ ” کہ کاش انہیں زمین کے ساتھ ہموار کردیا جاتا“ یعنی وہ خواہش کریں گے کہ کاش زمین انہیں نگل لے اور وہ مٹی ہو کر معدوم ہوجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا ﴾ (النبا :78؍40) ” اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہوتا۔ “ ﴿وَلَا يَكْتُمُونَ اللَّـهَ حَدِيثًا ﴾ ” اور وہ نہیں چھپا سکیں گے اللہ سے کوئی بات“ بلکہ وہ اپنی بد اعمالیوں کا اعتراف کریں گے۔ ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس روز اللہ تعالیٰ انہیں پوری پوری جزا دے گا۔ یعنی ان کی جزائے حق۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق اور کھلا کھلا بیان کردینے والا ہے اور کفار کے بارے میں یہ جو وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار کو چھپائیں گے تو قیامت کے بعض مواقع پر ایسا کریں گے جبکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ان کا کفر سے انکار اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلے میں کسی کام آسکے گا۔ لیکن جب وہ حقائق کو پہچان لیں گے اور خود ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دیں گے تب تمام معاملہ روشن ہو کر سامنے آجائے گا۔ پھر ان کے لیے چھپانے کی کوئی گنجائش باقی رہے گی نہ چھپانے کا کوئی فائدہ ہی ہوگا۔