سورة الملك - آیت 16

أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تم اس سے نڈر ہوگئے جو آسمان میں ہے ۔ کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے ۔ پھر ناگاہ لرزنے لگے ؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اس شخص کے لیے تہدید وعید ہے جو اپنی سرکشی، تعدی اور نافرمانی پر جماہوا ہے جو سزا اور عذاب کے نزول کی موجب ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ﴾ ”کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، نڈر ہو۔“ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے جو اپنی مخلوق پر بلند ہے ﴿ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ ﴾ ”کہ وہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے“ تمہیں لے کر کانپنے لگے اور تم ہلاک اور تباہ وبرباد ہوجاؤ ۔ ﴿ أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا﴾ ”کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے، بے خوف ہو کہ وہ تم پر پتھر برسا دے۔“ یعنی آسمان سے عذاب نازل کرے، تم پر پتھر برسائے اور اللہ تعالیٰ تم سے انتقام لے ﴿ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ﴾ یعنی تمہیں عنقریب معلوم ہوگا کہ وہ عذاب تم پر کیسے آتا ہے جس کے بارے میں تمہیں رسولوں اور کتابوں نے ڈرایا تھا۔ پس تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین اور آسمان کے عذاب سے تمہارا محفوظ ومامون ہونا تمہیں کوئی فائدہ دے گا۔ تم عنقریب اپنے کرتوتوں کا انجام ضرور دیکھو گے، خواہ یہ مدت لمبی ہو یاچھوٹی کیونکہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں نے بھی جھٹلایا جیسے تم نے جھٹلایا ہے تو دیکھ لو کیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس تکذب سے روکا؟ اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عذاب سے پہلے انہیں دنیا میں عذاب کا مزا چکھایا ، اس لیے ڈرو کہ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نازل نہ ہوجائے جو ان پر نازل ہوا تھا۔