سورة الطلاق - آیت 3

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیگا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ رکھے گا تو وہ اسے کافی ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ اپنا کام پورا کرلیتا ہے اللہ نے ہر شئے کا اندازہ کررکھا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾ اللہ تعالیٰ متقی شخص کے لیے ایسی جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے جہاں سے رزق کا آنا اس کے وہم وگمان میں ہوتا ہے نہ اسے اس کا شعور ہوتا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ﴾ جو کوئی اپنے دین اور دنیا کے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے ،یعنی کسی چیز کے حصول میں جو اس کے لیے نفع مند ہو اور کسی چیز کو دور ہٹانے میں جو اس کے لیے ضرر رساں ہو اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور اس میں آسانی پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ بھروسا کرتا ہے ﴿ فَهُوَ حَسْبُهُ ﴾ تو وہ اس معاملے میں اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے ،جس میں اس نے اس پر بھروسا کیا تھا۔ جب معاملہ غنی، قوی، غالب اور نہایت رحم والی ہستی کی کفالت میں ہے تو وہ ہستی بندے کے ہر چیز سے زیادہ قریب ہے۔ مگر بسا اوقات حکمت الٰہیہ مناسب وقت تک اس کی تاخیر کا تقاضا کرتی ہے۔ بنا بریں فرمایا :﴿اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ﴾ ”بے شک اللہ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے۔“ یعنی اس کی قضا وقدر کا نافذ ہونا لازمی امر ہے، لیکن ﴿ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا﴾ اس نے ایک وقت اور ایک مقدار مقرر کررکھی ہے جس سے یہ چیز تجاوز کرتی ہے نہ کوتاہی کرتی ہے۔