يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو ف 1 تو انہیں عدت کے وقت طلاق دو ۔ اور عدت گنتے رہو ۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود بھی نہ نکلیں ۔ مگر جب وہ صریح بےحیائی کا کام کریں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھا ۔ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ طلاق کے بعد کوئی نئی بات نکالے
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ﴾ ”اے نبی! جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو۔“ یعنی طلاق دینے کا ارادہ کرو۔﴿فَ﴾ ”پس“ تم ان کو طلاق دینے کے لیے مشروع وجہ طلاق تلاش کرو، جب طلاق کا سبب مل جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رعایت رکھے بغیر طلاق دینے میں جلدی نہ کرو بلکہ ﴿ طَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ﴾ ”انہیں ان کی عدت کے (آغاز )کے وقت میں طلاق دو۔“ یعنی ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو ،وہ اس طرح کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کے طاہر ہونے کی حالت میں، نیز اس طہر میں اس سے مجامعت کیے بغیر طلاق دے، پس یہی وہ طلاق ہے جس میں عدت واضح ہوتی ہے ۔اس کے برعکس اگر اس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو وہ اس حیض کو شمار نہیں کرے گی جس کے دوران طلاق واقع ہوئی ہے ،تو اس سبب سے اس پر عدت کا عرصہ طویل ہوجائے گا۔ اس طرح اگر اس نے ایسے طہر میں طلاق دی ہو جس میں مجامعت کی گئی ہو تو اس طرح وہ حمل سے مامون نہ ہوگی ،لہٰذا واضح نہ ہوگا کہ وہ کون سی عدت شمار کرے جبکہ اللہ تعالیٰ نے عدت شمار کرنے کا حکم دیا ہے ﴿وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ ﴾ یعنی ایسے حیض کے ذریعے سے شمار کیا جائے اگر بیوی کو حیض آتا ہے تو عدت کو حیض سے ضبط کرنا ہے اور اگر اس کو حیض نہ آتا ہو اور وہ حاملہ بھی نہ ہو تو اس کی عدت مہینوں کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ عدت کے شمار کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حقوق، طلاق دینے والے شوہر اور بعد میں نکاح کرنے والے شوہر کے حقوق کی ادائیگی بھی ہے، نیز اس میں مطلقہ کے نان ونفقہ وغیرہ کے حق کی ادائیگی ہے۔ پس جب عدت کو ضبط میں لایا جائے گا تو اس (کے حمل یا حیض وغیرہ) کا حال واضح طور پر معلوم ہوگا اور اس عدت پر مرتب ہونے والے حقوق معلوم ہوں گے۔ عدت شمار کرنے کے اس حکم کا رخ شوہر اور بیوی کی طرف ہے اگر بیوی مکلف ہے ورنہ اس کے سرپرست کی طرف ہے۔﴿ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ ﴾ یعنی اپنے تمام امور میں تقوٰی اختیار کرو اور مطلقہ بیویوں کے حق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو ﴿لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ﴾ عدت کی مدت کے دوران ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو بلکہ مطلقہ اس گھر میں رہے جس گھر میں شوہر نے اس کو طلاق دی ہے ﴿وَلَا یَخْرُجْنَ﴾ ”اور نہ وہ خود نکلیں۔ “یعنی مطلقہ بیویوں کے لیے ان گھروں سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ مطلقہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ بیوی کو گھر فراہم کرنا شوہر پر واجب ہے تاکہ وہ اس گھر میں رہ کر عدت پوری کرسکے جو شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اور مطلقہ بیوی کے خود گھر سے نکلنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس کا گھر سے نکلنا شوہر کے حق کو ضائع کرنا اور اس کی عدم حفاظت ہے ۔طلاق یافتہ عورتوں کا خود گھر سے نکلنے یا ان کو نکالے جانے کا حکم عدت کے پورا ہونے تک باقی رہے گا۔ ﴿ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ﴾ ”مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی کریں ۔“یعنی ان سے کوئی واضح طور پر قبیح فعل سرزد ہو جو ان کو گھر سے نکالنے کاموجب ہوا اور مطلقہ کو گھر سے نہ نکالنے سے گھروالوں کو ضرر پہنچتا ہو، مثلا :فحش اقوال وافعال کے ذریعے سے اذیت وغیرہ۔ اس صورت حال میں مطلقہ کو گھر سے نکال دینا گھروالوں کے لیے جائز ہے کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو گھر سے نکالنے کا سبب بنی ہے، حالانکہ گھر میں سکونت کی اجازت دینا مطلقہ کی دل جوئی اور اس کے ساتھ نرمی ہے اور اپنے آپ پر اس ضرر کا سبب وہ خود ہی بنی ہے۔ یہ حکم اس مطلقہ کے لیے ہے جو رجعی طلاق کی عدت گزار رہی ہو۔ رہی وہ مطلقہ جس کی طلاق بائنہ ہو، اس کو سکونت فراہم کرنا واجب نہیں کیونکہ سکونت نان ونفقہ کے تابع ہے اور نان ونفقہ صرف اس مطلقہ کے لیے ہے جسے رجعی طلاق دی گئی ہو اور جس کو طلاق بائنہ دی گئی ہو اس کے لیے نان ونفقہ نہیں ہے۔ ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾ ”یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ “جن کو اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں کے لیے مقرر کرکے مشروع کیا ہے اور ان حدود کا التزام کرنے اور ان پر ٹھہرنے کا ان کو حکم دیا ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ﴾ ”اور جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے۔“ وہ اس طرح کہ وہ ان مقرر کردہ حدود پر نہ ٹھہرے بلکہ ان حدود سے تجاوز یا کوتاہی کرے﴿فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ﴾ ”تو یقینا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔“ یعنی اس نے اپنا حق کم کیا اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کی اتباع میں سے ، جن میں دنیا وآخرت کی اصلاح ہے ،اپنے حصے کو ضائع کیا۔ ﴿لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا﴾ ”تجھے کیا معلوم شاید اللہ اس کے بعد کوئی سبیل پیدا کردے۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے عظیم حکمتوں کی بنا پر طلاق کو مشروع کرکے اس کو عدت کے ذریعے سے محدود کیا ہے ۔ان حکمتوں میں سے چند درج ذیل ہیں: ١۔ عدت کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق دینے والے کے دل میں رحمت اور مودت پیدا کردے اور طلاق دینے والا اس سے رجوع کرلے اور نئے سرے سے اس کے ساتھ رہنا سہنا شروع کردے۔ یہ چیز( مطلقہ سے رجوع کرنا)عدت کی مدت کی معرفت ہی سے ممکن ہے۔ ٢۔ ہوسکتا ہے شوہر نے بیوی کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر اس کو طلاق دی ہو اور عدت کی مدت میں وہ سبب دور ہوجائے تو وہ اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرلے کیونکہ طلاق کا سبب ختم ہوگیا ہے۔ ٣۔ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ عدت کی مدت کے دوران میں اس خاوند کے حمل سے مطلقہ کے رحم کی برات معلوم ہوجائے گی۔