سورة التغابن - آیت 7

زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

کافروں نے گمان کیا ۔ کہ وہ ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے ۔ تو کہہ کیوں نہیں مجھے اپنے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ۔ پھر تمہیں جتایا جائے گا جو تم کرتے تھے ۔ اور یہ اللہ پر آسان ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ کفار کے عناد، اور ان کے زعم باطل اور ان کے کسی علم ،کسی ہدایت اور کسی روشن کتاب کے بغیر قیامت کو جھٹلانے کے متعلق آگاہ کرتا ہے۔ پس اس نے اپنی مخلوق میں سے بہترین ہستی کو حکم دیا کہ وہ اس بات پر اپنے رب کی قسم کھائیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا ،پھر ان کو ان کے اعمال بد اور ان کی تکذیب حق کی سزا دی جائے گی ﴿وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ﴾ ”اور یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔“ خواہ یہ مخلوق کی نسبت سے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہی ہو کیونکہ اگر تمام مخلوق کے قوٰی ایک مردہ چیز کو زندہ کرنے کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو وہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ رہا اللہ تعالیٰ ،تو وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے:” ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے ۔“اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللّٰـهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ﴾( الزمر:39؍68)”اور جب صور پھونکا جائے گا ،تو وہ تمام لوگ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں بے ہوش ہوجائیں گے ،سوائے اس کے جسے اللہ (بے ہوش کرنا نہ ) چاہے، پھر اسے دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا تو اسی لمحہ سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور دیکھ رہے ہوں گے۔“